Maktaba Wahhabi

317 - 849
﴿ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ ’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ آسیب زدہ کر دیا ہو … بعض نے کہا ہے کہ ارتکاب گناہ ایسے لوگوں کو اللہ کی عقوبت، عطاء ثواب، اللہ کے وعدے اور وعید یاد آ جاتے ہیں تو وہ توبہ کرنے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جاتے ہیں اور فوراً اس کی جانب رجوع کر کے پناہ مانگنے لگتے ہیں وہ فوراً اہل بصیرت بن جاتے ہیں بے ہوشی میں تھے تو ہوش میں آ جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس کو مرگی کی بیماری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کرنے لگی: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے میری شفاء کے لیے دعا فرمائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہی تیری مرضی ہے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں وہ تجھے شفاء دے دے گا اور اگر تو چاہے تو صبر کر اور بروز قیامت حساب تجھ سے اٹھ جائے گا۔ تووہ عورت کہنے لگی: اچھا میں بیماری پر صبر کر لوں گی جبکہ مجھے حساب سے آزاد کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کہہ رہی تھی کہ مجھے صرع کی بیماری سے ہوش و حواس رخصت ہو جاتے ہیں جسم پر سے کپڑا کھل جاتا ہے برہنہ ہو جاتی ہوں ۔ بیماری دور نہ ہو تو نہ ہو، دعا کیجیے کم از کم میرا کپڑا نہ کھلنے پائے آپ نے دعا فرمائی اور پھر کبھی بحالت صرع کپڑا اس کے جسم سے نہ ہٹا۔[1] قرآن کا سننا باعث رحمت ہے تفسیر:… مشرکین مکہ نے جیسے مسلمانوں پر یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ وہ بیت اللہ میں داخل ہو کر نہ نماز ادا کر سکتے ہیں اور نہ طواف کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح یہ پابندی بھی لگا رکھی تھی کہ مسلمان نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کے بچے اور ان کی عورتیں قرآن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں ۔ دوسرے انہوں نے آپس میں سمجھوتا کر رکھا تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص قرآن نہ سنے۔ اگرچہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور شیریں انداز کلام سے وہ خود بھی متاثر ہو کر اپنی اس تدبیر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کبھی کبھی قرآن سن لیا کرتے تھے اور قرآن کی دعوت کو روکنے کے لیے ان کی تیسری تدبیر یہ تھی کہ جہاں قرآن پڑھا جا رہا ہو وہاں خوب شور و غل کیا جائے تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کانوں میں نہ پڑ سکے اس طرح تم اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتے ہو۔[2]
Flag Counter