Maktaba Wahhabi

642 - 849
مسوڑھا پھٹ جائے گا تو اسے چھوڑ دیا جائے البتہ بعد ازوفات ان کو اس لیے اتار لیا جائے گا کیونکہ سونا مال سے شمار ہوتا ہے اور میت کے بعد اس کے ورثاء مال کے وارث ہوتے ہیں ، لہٰذا مذکورہ صورت میں یا کسی بھی شکل میں میت پر سونا باقی چھوڑنا اور اسے سونا پہنے ہوئے ہی دفن کرنا مال کا ضیاع ہے۔[1] بالوں کے احکام و مسائل سوال : مندرجہ ذیل مسائل کا شرعی حکم کیا ہے؟ (۱) بغلوں اور زیر ناف بالوں کو زائل کرنا (۲) عورتوں کا ٹانگوں اور بازوؤں کے بال اتارنا (۳) خاوند کی فرمائش پر ابروؤں کے بال اتارنا؟ جواب : (۱) بغلوں اور زیر ناف بالوں کو اتارنا سنت ہے۔ بغلوں کے بال نوچنا (ہاتھ سے اکھیڑنا) جبکہ زیر ناف بالوں کو مونڈنا افضل ہے۔ ویسے ان بالوں کا کسی بھی طرح سے زائل کرنا درست ہے۔ (۲) جہاں تک عورتوں کے لیے ٹانگوں اور بازوؤں کے بال اتارنے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ہم اس میں کوئی عیب اور گناہ نہیں جانتے۔ (۳) عورت کے لیے خاوند کی فرمائش پر ابرو کے بال اتارنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نامصۃ اور متنمصۃ، یعنی بال اکھاڑنے والی اور بال اکھڑوانے والی (اس کا مطالبہ کرنے والی) دونوں پر لعنت فرمائی ہے (نمص) سے مراد ہی ابرو کے بال اتارنا ہے۔[2] سوال : کیا عورت کے لیے ابرو کے ایسے بال اتارنا یا انہیں باریک کرنا جائز ہے جو اس کے منظر کی بدنمائی کا باعث ہوں ؟ جواب : اس مسئلے کی دو صورتیں ہیں : پہلی صورت تو یہ ہے کہ ابرو کے بال اکھاڑے جائیں تو یہ عمل حرام ہے اور گناہ ہے کیونکہ یہ نمص (ابرو کے بال نوچنا) ہے جس کے مرتکب پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بال مونڈ دئیے جائیں تو اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ آیا یہ نمص ہے یا نہیں ؟ اولیٰ یہ ہے کہ عورت اس سے بھی احتراز کرے۔ باقی رہا غیر عادی بالوں کا معاملہ، بعض ایسے بال جو جسم کے ان حصوں پر اگ آئیں جہاں عادتاً نہیں اگتے، مثلاً عورت کی مونچھیں اگ آئیں یا رخساروں پر بال آجائیں تو ایسے بالوں کے اتارنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ خلافِ عادت ہیں اور
Flag Counter