Maktaba Wahhabi

366 - 849
مسند احمد میں ہے جب یزید بن معاویہ کی بیعت لوگ توڑنے لگے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے تمام گھرانے کے لوگوں کو جمع کیا اور اللہ کی تعریف کر کے اما بعد کہہ کر فرمایا کہ ہم نے یزید کی بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت پر کی ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر غدار کے لیے روز قیامت ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا یہ غدر ہے فلاں بن فلاں کا۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے بعد سب سے بڑا غدر یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی بیعت کسی کے ہاتھ پر کر کے پھر توڑ دینا۔ یاد رکھو تم میں سے کوئی یہ برا کام نہ کرے اور اس بارے حد سے نہ بڑھے ورنہ مجھ میں اور اس میں جدائی ہے۔[1] دنیوی اور دینی مفادات سے بے نیاز ہو کر عہد نبھانا چاہیے عہد کی پاس داری کی بہترین مثال وہ واقعہ ہے جو غزوہ بدر کے میدان میں پیش آیا دو مسلمان حذیفہ بن یمان اور ابو حسیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنگ میں شمولیت کے لیے آئے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ہم کافروں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ ہمیں ان سے رہائی اس شرط پر ملی تھی کہ ہم جنگ میں حصہ نہ لیں ، چنانچہ آپ نے ان دونوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ جب تم ان سے عہد کر چکے ہو تو اپنا عہد پورا کرو۔[2] حالانکہ اس وقت آپ کو افرادی قوت کی شدید ضرورت بھی تھی اور مذہبی مفادات کے نام پر عہد شکنی کرنے اور دوسرے کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال ہضم کرنے والے یہود تھے جنہوں نے اپنا اصول ہی یہ بنا لیا کہ ﴿لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ﴾ یعنی غیر یہودی سے ہم جو کچھ بھی کر لیں ہمیں اس پر کچھ مواخذہ نہ ہو گا۔[3] دین کی حمایت کے لیے غلط ذرائع استعمال کرنے کے نقصانات اور ان کی ممانعت یہ کوئی پسندیدہ بات نہیں کہ تم اپنے دینی مفاد کے لیے عہد شکنی یا دیگر ناجائز ذرائع استعمال کرنے لگو۔ ایک پاکیزہ اور صاف ستھرے دین میں لوگوں کو لانے اور دعوت دینے کے طریق بھی پاکیزہ ہونے چاہئیں اور اگر محض لوگوں کو ہدایت دینا مقصود ہوتا تو اللہ یہ کام خود بھی کر سکتا تھا مگر اس نے لوگوں کو قوت و ارادہ دے رکھا ہے تاکہ اس کا آزادانہ استعمال کریں پھر جو شخص اپنے ارادہ سے غلط راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے اسباب بھی ویسے بنا دیتے ہیں اور سیدھی راہ پر چلنا چاہے تو اسے ویسی توفیق عطا فرماتا ہے۔[4]
Flag Counter