صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے تو وہ باپ کے ہوتے ہوئے اپنے بھائی کے ورثے میں کچھ نہیں پائیں گے۔ لیکن ہاں ماں کو تہائی سے ہٹا کر چھٹا حصہ دلوائیں گے اور اگر کوئی اور وارث ہی نہ ہو اور صرف ماں کے ساتھ باپ ہی ہو تو باقی مال کل کا کل باپ لے لے گا اور بھائی بھی شریعت میں بہت سے بھائیوں کے مترادف ہیں ۔ لیکن اگر میت کا ایک ہی بھائی ہو تو ماں کو تیسرے حصے سے ہٹا نہیں سکتا۔ علمائے کرام کا فرمان ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کے بھائیوں کی شادیوں کا اور کھانے پینے وغیرہ کا کل خرچ باپ کے ذمے ہے نہ کہ ماں کے ذمے اس لیے مقتضائے حکمت یہی تھا کہ باپ کو زیادہ دیا جائے۔ یہ توجیہ بہت عمدہ ہے۔[1] دادا کی میراث دادا کے بارے اہل علم نے اختلاف کیا ہے کہ کیا وہ باپ کے رتبے میں ہے جس کی وجہ سے بہن بھائی ساقط ہو جاتے ہیں یا نہیں ؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تو یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ باپ کے رتبے میں ہے نیز ان کے ایام خلافت میں کسی صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی ان کی وفات کے بعد انہوں نے اس مسئلے کے بارے اختلاف کیا ہے، چنانچہ ابوبکر والی بات ہی کی ہے سیّدنا ابن عباس، سیّدنا عبداللہ بن زبیر، سیّدہ عائشہ، سیّدنا معاذ بن جبل، سیّدنا ابی بن کعب، سیّدنا ابو درداء، سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ، عطاء و طاؤس اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ جیسے دیگر بزرگوں نے انہوں نے اس فرمان تعالیٰ کو حجت بنایا ہے: ﴿مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ﴾ (الانفال: ۱۲) ’’تمہارے باپ ابراہیم کی ملت۔‘‘ اور اللہ کا یہ فرمان: ﴿یَآ بَنِیْ آدَمَ﴾ (الحج: ۷۸) ’’اے اولاد آدم!‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((اِرْمُوْا یَا بَنِیْ اِسْمَاعِیْلَ)) ’’اے اولاد اسماعیل تم تیر اندازی کرو۔‘‘[2] نیز جمہور کا موقف ہے کہ دادا بھتیجوں کو ساقط کر دے گا۔[3] دادی، نانی کا حصہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ میت کی ماں کی عدم موجودگی میں دادی نانی کو چھٹا حصہ ملے گا اور ان کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ باپ نانی کو (وراثت سے) ساقط نہیں کرتا۔ جبکہ ان کا دادی کو وارث بنانے کے بارے اختلاف ہے جبکہ اس کا بیٹا بھی زندہ ہو، چنانچہ سیّدنا زید بن ثابت، سیّدنا عثمان اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ وہ وارث نہیں بنے گی، اس حال میں کہ اس کا بیٹا زندہ ہو۔ یہی بات مالک، ثوری، اوزاعی، ابوثور رحمہم اللہ اور اصحاب رأی نے کی ہے۔[4] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |