Maktaba Wahhabi

373 - 849
فرمایا میرے پاس جبریل آئے اور کہا: اے نبی! اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس تیرا ذکر ہو اور اس نے تجھ پر درود بھی نہ پڑھا ہو۔ کہیے آمین۔ چنانچہ میں نے آمین کہی۔ پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالیٰ خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور چلا بھی گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔ آمین کہیے۔ چنانچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی۔ پھر فرمایا اے اللہ اسے بھی برباد کر جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پا لیا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا۔ کہیے آمین! میں نے کہا آمین۔[1] ایک حدیث میں ہے جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیا پھر بھی دوزخ میں گیا اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے۔[2] والدین سے حسن سلوک کی وجوہ جب والدین بوڑھے ہوں اور کما بھی نہ سکتے ہوں اور ان کی اولاد جوان اور برسر روزگار ہو تو والدین کئی لحاظ سے اولاد سے بہتر سلوک کے محتاج ہوتے ہیں ایک یہ کہ اولاد ان سے مالی تعاون کرے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرے دوسرے یہ کہ والدین کی محبت تو اپنی اولاد سے قائم رہتی ہے مگر اولاد کی محبت آگے اپنی اولاد کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اس لیے اولاد اپنی اولاد کی طرف متوجہ رہتی ہے اور والدین کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے حالانکہ اس عمر میں والدین کو اولاد سے زیادہ خاص توجہ درکار ہوتی ہے تیسرے یہ کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے طبعی طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے اور اولاد چونکہ اب ان کی طرف سے بے نیاز ہو چکی ہوتی ہے لہٰذا وہ والدین کی باتیں برداشت کرنے کی بجائے انہیں الٹی سیدھی باتیں سنانے لگتی ہے انہیں وجوہ کی بنا پر اولاد کو یہ تاکید کی گئی کہ ان سے بات کرو تو ادب کے ساتھ اور محبت و الفت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بات کرو جس سے انہیں کسی قسم کی ذہنی یا روحانی اذیت نہ پہنچے۔ عقوق کے معنی عقوق کے معنی عموماً نافرمانی لیا جاتا ہے، حالانکہ عقوق کا معنی وہ فعل ہے جس سے والدین کو ذہنی اور روحانی اذیت پہنچے مثلاً والدین کی طرف بے توجہی بالخصوص اس وقت جبکہ وہ بوڑھے اور توجہ کے محتاج ہوں یہ بات نافرمانی کے ضمن میں نہیں آتی مگر عقوق کے معنی میں ضرور آ جاتی ہے، اسی لیے قرآن نے کئی مقام پر والدین سے احسان یا بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے۔ (یاد رہے عقوق الوالدین کو حدیث میں شرک کے بعد سب
Flag Counter