Maktaba Wahhabi

377 - 849
﴿ أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ﴿٧٨﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴾ ’’نماز قائم کر سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور فجر کا قرآن (پڑھ)۔ بے شک فجر کا قرآن ہمیشہ سے حاضر ہونے کا وقت رہا ہے۔ اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیر ارب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔‘‘ عرب میں تو قتل اولاد کاکام انفرادی طور پر تھا مگر آج کل ایسے ہی کام اجتماعی طور پر اور حکومتوں کی طرف سے ہو رہے ہیں اور حکومت کے ان محکموں کے لیے بڑے اچھے اچھے نام تجویز کیے جاتے ہیں جیسے محکمہ خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی اور اس کام کا جذبہ محرکہ وہی مفلسی کا ڈر ہے نیز اس سلسلہ میں سورۃ الانعام آیت ۱۳۷ اور ۱۵۱ کے حواشی دیکھئے۔[1] تفسیر:… اس آیت میں مذکور دلوک کا لفظ جو آیا ہے، علماء نے اس میں دو قولوں پر اختلاف کیا ہے ایک یہ کہ اس سے مراد زوال شمس… اور دوسرا یہ کہ اس سے غروب شمس مراد ہے امام ازہری کہتے ہیں : میرے نزدیک یہ نصف النہار کو جو زوال کا وقت ہے تاکہ آیت پانچوں نمازوں کی جامع بن جائے۔ اور معنی یہ ہوگا: زوال شمس سے شروع ہو کر (رات کے چھا جانے تک) نماز قائم کرو تو اس میں ظہر و عصر بھی آجاتی ہے اور تاریکی کی نمازیں بھی جو کہ شام کی نمازیں ہیں پھر کہا (وقرآن الفجر) ’’اور فجر کی نماز‘‘ یہ پانچ نمازیں ہوئیں ۔[2] تہجد اور لفظ تہجد یہ ہجود سے ماخوذ ہے، ابو عبیدہ وابن الاعرابی کہتے ہیں کہ یہ اضداد (دو مخالف معنوں والے الفاظ میں سے ہے کیونکہ جب آدمی سوئے تب بھی ’’ہجد رجل‘‘ کہتے ہیں اور جب بیدار ہو تب بھی۔[3] تہجد کے لغوی معنی رات کو ایک دفعہ سونے کے بعد رات کے ہی کسی حصے میں بیدار ہونا ہے اور اس سے شرعاً وہ نماز مراد ہے جو رات کو سونے کے بعد طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کے کسی حصے میں نصف شب کے بعد ادا کی جائے اس نماز کی تعداد رکعات اور وقت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے:
Flag Counter