کا ۸/۱، نکال کر باقی ۲۴/۵ حصہ دلایا تھا عصبہ کے متعلق آپ نے فرمایا: ۳۔ اللہ کے مقرر کردہ حصہ داروں کو ادا کرو، پھر جو باقی بچے وہ قریب ترین رشتہ دار مرد کا ہے۔[1] بسا اوقات ذوی الفروض عصبہ کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتے ہیں ، مثلاً میت کی اولاد صرف دو بیٹیاں ہیں ۔ نہ والدین ہیں ، نہ بیوی، تو بیٹیوں کو ۳/۲ ملے گا اور باقی کے لیے عصبہ تلاش کرنا پڑے گا لیکن اگر ان بیٹیوں کے ساتھ ایک بیٹا بھی ہو تو بیٹا چونکہ عصبہ ہے، لہٰذا وہ بہنوں کو بھی عصبہ بنا دے گا اور تقسیم اس طرح ہو گی: بیٹے کا ۲/۱ اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک ۴/۱۔ عصبہ کي تلاش: عصبہ سب سے پہلے اولاد سے دیکھا جائے گا، پھر اوپر کی طرف سے پھر چچاؤں میں سے پھر ان کے بیٹوں میں سے۔ ۴۔ مولیٰ عصبہ:… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آزاد کردہ غلام کے) ورثہ کا عصبہ کی حیثیت سے حق دار وہ ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔[2] ۵۔ ذوی الارحام:… اگر ذوی الفروض اور عصبہ بھی موجود نہ ہو اور صرف بھانجے بھانجیاں نواسے نواسیاں ماموں وغیرہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے۔ وہی اس کی طرف سے دیت دے گا اور وہی وارث ہو گا۔‘‘[3] اسلامی قانون وراثت کا مدار اسلامی قانون وراثت کا مدار تین چیزوں پر ہے: نسب، نکاح اور ولاء۔ ۱۔ نسب میں تین پہلوؤں کو ملحوظ رکھا کہ سب سے پہلے اولاد کو جیسا کہ ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ دوسرے نمبر پر والدین کے حصوں کا ذکر ہے اور تیسرے نمبر پر بہن بھائیوں کا ذکر ہے۔ ۲۔ نکاح سے مراد مختلف صورتوں میں میاں بیوی کے حصوں کا ذکر ہے۔ ۳۔ ولاء سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا آزاد کردہ غلام جس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو تو اس کا وارث وہ مالک ہوتا |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |