Maktaba Wahhabi

202 - 849
ہے جس نے اسے آزاد کیا تھا اور یہ صورت آج کل مفقود ہے۔ نکاح کی بنا پر بھی حصوں کا ذکر نسبتاً آسان ہے کہ میت اگر عورت ہو اور بے اولاد ہو تو مرد کو اس کی میراث کا آدھا ملے گا اور اگر صاحب اولاد ہو تو خاوند کو چوتھائی حصہ ملے گا۔ اسی طرح اگر میت مرد بے اولاد ہو تو بیوی کو یا اس کی سب بیویوں کو چوتھائی حصہ ملے گا اور اولاد والا ہے تو بیوی کو یا سب بیویوں کو آٹھواں حصہ بحصہ برابر ملے گا۔ اب نسب کے رشتہ داروں کے حصے ذرا قابل فہم ہیں کیونکہ ان کی بہت سی صورتیں ہیں ان میں سے چند مشہور و معروف عام صورتیں درج ذیل ہیں : ۱۔ جو مرد یا عورت بوڑھا ہو کر اپنی طبعی موت مرتا ہے تو اس وقت عموماً اس کے والدین دنیا سے رخصت ہو چکے ہوتے ہیں اور اگر بہن بھائی ہوں تو الگ گھروں والے ہوتے ہیں اس صورت میں اولاد ہی وارث ہوتی ہے۔ اب اگر اولاد ایک بیٹا ہی ہے تو زوجین میں سے کسی ایک کا حصہ نکالنے کے بعد باقی سب میراث کا وارث ہو گا اور زیادہ بیٹے ہوں تو سب اس باقی حصہ میں برابر حصہ دار ہوں گے اور بہن بھائی اگر ملے جلے ہیں تو لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ کی نسبت سے ورثہ ملے گا اور اگر لڑکا ایک بھی نہیں ایک لڑکی ہے تو اسے کل کا نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں ۔ تو انہیں کل کا ۳/۲ ملے گا۔ ۲۔ اس کے بعد عام صورت یہ ہے کہ میت کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو اگر دونوں زندہ ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو کل کا چھٹا حصہ ملے گا اگر باپ زندہ نہیں تو باپ کا حصہ دادا کو مل جائے گا اور ماں زندہ نہیں لیکن نانی زندہ ہے تو ماں کا حصہ نانی کو مال جائے گا اور بقول بعض اگر نانی زندہ نہیں اور دادی زندہ ہے تو ماں کا حصہ دادی کو مل جائے گا اور اگر دونوں زندہ ہیں تو یہی چھٹا حصہ دونوں میں برابر برابر تقسیم ہو گا والدین کا اور زوجین میں سے کسی ایک کا حصہ نکال لینے کے بعد باقی میراث اولاد میں تقسیم ہو گی۔ بحساب مذکر ۲ حصے اورمونث کے لیے ایک حصہ۔ اس صورت میں کبھی ایک الجھن بھی پیش آ سکتی ہے مثلاً میت عورت ہے جس کے والدین بھی زندہ ہیں شوہر بھی اور دو لڑکیاں بھی لڑکیوں کا ۳/۲ حصہ اور والدین میں سے ایک کا ۶/۱ یعنی دونوں کا ۳/۱ حصہ اور خاوند کا ۴/۱ بالفاظ دیگر جائیداد کل بارہ حصے کرنے چاہئیں ۔ جن میں سے ۸ تو لڑکیاں لے گئیں ۔ ۳ خاوند کے حصے میں آئے۔ ۲ حصے والدہ کے اور ۲ حصے والد کے یہ کل ۱۵ حصے بنتے ہیں ۔ یعنی حاصل جمع ایک سے بڑھ جاتی ہے ایسی صورت کو فقہی اصطلاح میں عول کہتے ہیں ، اس صورت میں کل جائیداد کے ۱۲ کی بجائے پندرہ حصے کر کے انہیں مذکورہ بالا حصہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
Flag Counter