میرے پاس ایک چچا زاد آیا تو میں نے اسے اس سے بیاہ دیا۔ پھر جتنی دیر اللہ کو منظور ہوا وہ اس کے پاس رہی۔ پھر اس نے اسے طلاق دے دی اور رجوع نہیں کیا حتیٰ کہ عدت گزر گئی اب دونوں کے دلوں میں محبت جاگی تو اس نے اسے نکاح کا پیغام بھیج دیا اور دوسروں کے پیغام بھی آئے ہوئے تھے تو میں نے اسے کہا میں نے اس کے ذریعے تجھے عزت دی اور اسے تجھ سے بیاہ دیا تو تو نے اسے طلاق دے ڈالی پھر پیغام نکاح لے کر آیا ہے۔ اللہ کی قسم! اب وہ کبھی تیرے پاس نہیں آ سکتی، حالاں کہ وہ اچھا آدمی تھا اور عورت بھی ادھر پلٹنا چاہتی تھی سو اللہ نے ان کی خواہش کے پیش نظر یہ آیت ﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ﴾ اتار دی۔ تو میرے بارے یہ آیت نازل ہوئی، لہٰذا میں نے اپنی قسم کا کفارہ دے دیا اور اسے اس بیاہ دیا۔[1] ولی کے بغیر نکاح نہیں ، مگر عورت کی رضا مقدم ہے اس حدیث سے ضمناً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے مگر عورت کی رضا مقدم ہے۔ اللہ نے معقل کی بجائے جمیلہ کی رائے مقدم رکھ کر اس کے مطابق حکم نازل فرمایا۔ ۱۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ یا مطلقہ کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے صاف صاف زبان سے اجازت نہ لے لی جائے، اسی طرح کنواری کا نکاح بھی نہ کیا جائے جب تک وہ اجازت نہ دے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کنواری اجازت کیسے دے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس کا چپ رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔‘‘[2] ۲۔ خنساء بنت حزام انصاریہ کہتی ہیں کہ میرے باپ نے میرا نکاح کر دیا، حالانکہ میں شوہر دیدہ تھی اور اس نکاح کو پسند نہ کرتی تھی۔ آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ نے میرے باپ کے کیے ہوئے نکاح کو فسخ کر ڈالا۔[3] ۳۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘[4] ۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے اور نہ ہی خود اپنا نکاح کرے بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے اپنا نکاح خود کیا۔‘‘[5] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |