Maktaba Wahhabi

112 - 849
﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ ’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں ، اس کے لیے جو چاہے کہ دودھ کی مدت پوری کرے اور وہ مرد جس کا بچہ ہے، اس کے ذمے معروف طریقے کے مطابق ان (عورتوں ) کا کھانا اور ان کا کپڑا ہے۔ کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر جو اس کی گنجائش ہے، نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے تکلیف دی جائے اور نہ اس مرد کو جس کا بچہ ہے، اس کے بچے کی وجہ سے۔ اور وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر وہ دونوں آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ۔ اور اگر تم چاہو کہ اپنے بچوں کو دودھ پلواؤ تو تم پر کوئی گناہ نہیں ، جب معروف طریقے کے مطابق پورا ادا کر دو جو تم نے دیا تھا اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ تفسیر:… والدات کے حکم میں وہ مائیں بھی داخل ہیں جن کو طلاق ہو چکی ہو خواہ عدت میں ہوں یا عدت بھی گزر چکی ہو اور وہ بھی جو بدستور بچے کے باپ کے نکاح میں ہوں ۔[1] ﴿حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ﴾ اس سے معلوم ہوا کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے تاہم اس سے حسب ضرورت کم ہو سکتی ہے۔ (جیسا کہ آگے اس کا ذکر آ رہا ہے) اور یہ مدت قمری تقویم کے حساب سے شمار ہو گی۔[2] ﴿وَ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَ کِسْوَتُہُنَّ﴾ (وَ عَلَی الْوَالِدِ) کی جگہ ﴿وَ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ﴾ کا لفظ اس بات پر دلالت کرنے کے لیے بولا گیا ہے کہ اولاد باپ کی ہوتی ہے نہ کہ ماں کی، اسی لیے وہ ماؤں کی
Flag Counter