سورۃ ص آغاز ہی کے حرف صٓ کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔[1] زمانہ نزول جیساکہ آگے چل کر بتایا جائے گا بعض روایات کی رو سے یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں علانیہ دعوت کا آغاز کیا تھا اور قریش کے سرداروں میں اس پر کھلبلی مچ گئی تھی۔[2] موضوع و پس منظر ابو طالب کی جب وفات کا وقت آیا تو قریشی اکٹھے ہو کر ان کے پاس آئے کہ ہمارا اپنے بھتیجے سے جھگڑا چکا دو وہ جس کی مرضی چاہے عبادت کرتا رہے بس ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرے۔ ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر اپنے تئیں یہ معقول بات پیش کی لیکن آپ فرماتے ہیں ایک کلمہ ہے اگر یہ اس کو اپنا لیں تو سارا عرب ان کا مطیع ہو جائے اور دیگر لوگ ان کے باجگزار بن جائیں ان کے پوچھنے پر آپ بتاتے ہیں (لآ الٰہ الا اللّٰہ) تو وہ سارے برا بھلا کہتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں ۔ اسی واقعے پر تبصرے سے اس سورت کا آغاز ہوتا ہے اس سابقہ گفتگو کی بنیاد پر اللہ نے فرمایا ان لوگوں کے انکار کی اصل وجہ دعوت اسلامی کا نقص نہیں بلکہ ان کا اپنا تکبر، حسد اور تقلید اعمیٰ پر اصرار ہے۔ ان کے نزدیک توحید اور آخرت کا تخیل محض ناقابل قبول ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا تخیل ہے جس کا بس مذاق ہی اڑایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ کے ابتدائی حصے میں بھی اور آخری فقروں میں بھی کفار کو صاف صاف متنبہ کیا ہے کہ جس شخص کا تم مذاق اڑا رہے ہو۔ عنقریب وہی غالب آکر رہے گا۔ پھر پے در پے ۹ پیغمبروں کا ذکر کر کے جن میں حضرت داؤد سلیمان علیہ السلام کا قصہ زیادہ مفصل ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بات سامعین کے ذہن نشین کرائی ہے کہ اس کا قانون عدل بالکل بے لاگ ہے۔ اس کے بعد فرمانبردار اور نافرمان بندوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ آخر میں قصہ وآرام وابلیس کا ذکر کیا گیا ہے۔[3] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |