سورۃ الصٰفت پہلی ہی آیت کے لفظ ’’والصافات‘‘ سے ماخوذ ہے۔ [1] زمانہ نزول مضامین اور طرز کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت غالباً مکی دور کے وسط میں بلکہ شاید اس دور متوسط کے بھی آخری زمانے میں نازل ہوئی ہے انداز بیان صاف بتا رہا ہے کہ پس منظر میں مخالفت پوری شدت کے ساتھ برپا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب نبی رضی اللہ عنہم کو نہایت دل شکن حالات سے سابقہ پیش ہے۔[2] موضوع ومضمون اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید وآخرت کا جواب جس تمسخر اور استہزاء کے ساتھ دیا جا رہا تھا اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا اس پر کفار کو نہایت پر زور طریقے پر تنبیہ کی گئی ہے اور آخر میں انہیں صاف صاف خبردار کر دیا گیا ہے کہ عنقریب یہی پیغمبر جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو تمہارے دیکھتے دیکھتے تم پر غالب آجائے گا اور تم اللہ کے لشکر کو خود اپنے گھر کے صحن میں اترا ہوا پاؤ گے۔ (آیات نمبر ۱۷۱ تا ۱۷۹) یہ نوٹس ان دنوں دیا گیا جب آپ کی کامیابی کے آثار دور دور تک کہیں نظر نہ آتے تھے۔[3] فضیلت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہلکی نماز پڑھنے کا حکم فرماتے تھے اور آپ ہمیں سورۃ الصافات سے نماز پڑھاتے تھے۔[4] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |