Maktaba Wahhabi

330 - 849
عمر بن الخطاب، سیّدنا ابن عمر، سیّدنا ابن عباس، سیّدنا جابر، سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم اور سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ وغیرہ ہیں اور بات بھی یہی حق ہے جیسا کہ ادلہ آ رہی ہیں ، جو اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ جن کی زکاۃ ادا کر دی گئی ہو وہ کنز نہیں ہے۔[1] مال کے خزانے اور عذابِ الٰہی جس چیزکو محبوب بنا کر اللہ تعالیٰ اطاعت سے اسے مقدم کرے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہو گا ان مال داروں نے مال کی محبت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے جیسے کہ ابولہب کھلم کھلا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی۔ قیامت کے دن آگ بھڑکانے کے لیے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر سلگائے گی اور اس میں وہ جلتا رہے گا۔ یہ مال جو یہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دئیے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایسے مال داروں کے جسم ایسے لمبے چوڑے کر دئیے جائیں گے کہ ایک ایک درہم و دینار اس پر آ جائے، پھر کل مال آگ جیسا کر کے علیحدہ علیحدہ بنا کر سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا۔ یہ نہیں کہ ایک کے بعد ایک داغ لگے، بلکہ ایک ساتھ سب کے سب (موقوف حسن) مرفوعاً بھی یہ روایت آئی تو ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ۔ و اللہ اعلم۔ حضرت طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے گا جو عضو سامنے آ جائے گا اسی کو چبا جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو اپنے بعد خزانہ چھوڑ جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا تو کون ہے؟ وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ آخر اسے پکڑ لے گا اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی۔[2] صحیح مسلم وغیرہ میں ہے جو شخض اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنا دیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دیکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔[3]
Flag Counter