Maktaba Wahhabi

541 - 849
﴿ وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا ﴿٤﴾ ذَٰلِكَ أَمْرُ اللَّـهِ أَنزَلَهُ إِلَيْكُمْ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا ﴾ ’’اور وہ عورتیں جو تمھاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہیں ، اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا ۔ یہ اللہ کا حکم ہے جسے اس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے بڑا اجر دے گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گناہ کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم رہ جاتا ہے تقدیر کو لوٹانے والی چیز صرف دعا ہے عمر میں زیادتی کرنے والی چیز صرف نیکی ہے اور خوش سلوکی۔[1] اس مقام پر رزق کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ انسان دوران عدت مطلقہ عورت پر خرچ کرنے اور اس کو بھلے طریقے سے رخصت کرنے میں بخل سے کام نہ لے۔[2] جنہیں حیض نہیں آتا ان کی عدت تفسیر:… یہ ان عورتوں کا حکم ہے جنہیں حیض آنا قطعی بند ہو چکا ہو اور کبر سنی کی وجہ سے وہ سن ایاس میں داخل ہو چکی ہوں ان کی عدت اس روز شمار ہوگی جس روز انہیں طلاق دی گئی ہو اور تین مہینوں سے مراد تین قمری مہینے ہیں اگر قمری مہینے کے آغاز میں طلاق دی گئی ہو تو بالاتفاق رویت ہلال کے لحاظ سے عدت شمار ہوگی۔ جن کے حیض میں بے قاعدگی ہو ان کے بارے فقہاء کے بارے اختلافات ہیں : حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس عورت کو طلاق دی گئی ہو پھر ایک دو مرتبہ حیض آنے کے بعد اس کا حیض بند ہوگیا ہو وہ
Flag Counter