Maktaba Wahhabi

139 - 849
وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّـهُ ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ کرو تو گواہ بنا لو، اور نہ کسی لکھنے والے کو تکلیف دی جائے اور نہ کسی گواہ کو اور اگر ایسا کرو گے تو بلاشبہ یہ تم میں بڑی نافرمانی ہے اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمھیں سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے۔‘‘ قرض کے احکام تفسیر:… ﴿اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی﴾ سے پتا چلتا ہے کہ قرض کے معاملے میں مدت کی تعیین ہونی چاہیے۔ عموماً دوستوں اور عزیزوں کے درمیان قرض کے معاملات میں دستاویز لکھنے اور گواہیاں لینے کو معیوب اور بے اعتمادی کی دلیل جانا جاتا ہے لیکن اللہ کا ارشاد یہ ہے کہ قرض اور تجارتی قرار دادوں کو تحریر میں لانا چاہیے اور اس پر شہادت ثبت کر لینی چاہیے تاکہ لوگوں کے درمیان معاملات صاف رہیں ۔ حدیث میں آتا ہے، تین اقسام کے آدمی ایسے ہیں جو اللہ سے فریاد کرتے ہیں مگر ان کی فریاد سنی نہیں جاتی، ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے۔[1] شہادت کا نصاب تحریر کے بعد اس تحریر پر دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ہونی چاہیے جو معاشرے میں قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں اور اگر معاملہ ذمیوں کے درمیان ہو تو گواہ ذمی بھی ہو سکتے ہیں اور اگر بوقت تحریر دو مسلمان قابل اعتماد گواہ میسر نہ آئیں تو ایک مرد اور دو عورتیں بھی گواہ بن سکتی ہیں اور اگر ایک بھی مرد میسر نہ آئے تو چار عورتیں گواہ نہیں بن سکتیں اور گواہی کا یہ نصاب صرف مالی معاملات کے لیے ہے۔ مثلاً زنا اور قذف کے لیے چار مردوں ہی کی گواہی ضروری ہے چوری اور نکاح و طلاق کے لیے دو مردوں ہی کی گواہی ہو گی۔ افلاس (دیوالیہ) کے لیے اس قبیلے کے تین مردوں کی، رؤیت ہلال کے لیے صرف ایک مسلمان کی اور رضاعت کے ثبوت کے لیے صرف ایک متعلقہ عورت (دایہ) ہی گواہی کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ﴿فَتُذَکِّرَ اِحْدٰہُمَا الْاُخْرٰی﴾ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر رکھی گئی ہے اور حدیث کی رو سے یہ عورتوں کے نقصان عقل کی بنا پر ہے اور دوسرے یہ کہ زبانی گواہی کی
Flag Counter