جنوں اور انسانوں کے معاملات سوال : جنوں اور انسانوں کا ایک دوسرے سے کام لینے کا کیا انداز ہے؟ جواب : جنات انہیں خوفزدہ کر کے انہیں اپنے پیچھے لگاتے ہیں اور انسان انہیں مسخر کر کے ان سے اپنے کام کرواتے ہیں جو کہ ممنوع فعل ہے۔[1] سوال : جن عموماً کن کو چمٹتے ہیں ؟ جواب : عورتوں کوا پنا آسان ہدف سمجھتے ہوئے۔[2] ’’اگر اللہ چاہے گا تو کر لیں گے‘‘ کیا اس جملے کو اپنے جرم کا بہانہ بنا نا درست ہے؟ سوال : ’’اگر اللہ چاہے گا تو کر لیں گے‘‘ کیا اس جملے کو اپنے جرم کا بہانہ بنا نا درست ہے؟ جواب : یہ مشرکانہ سرشت ہے جیسا کہ قرآن میں آتا ہے: ﴿سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ﴾ (الانعام: ۱۴۸) ’’عنقریب وہ لوگ کہیں گے جنھوں نے شریک بنائے ہیں ، اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شریک بناتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے۔‘‘ انہیں جب شرک سے روکا جائے تو کہتے ہیں اللہ چاہتا ہے تو ہم شرک کرتے ہیں اس کی چاہت کے بغیر تو ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے گویا وہ مشیت کو رضا کے معنی میں لیتے ہیں ، حالانکہ یہ ضروری نہیں ۔ بعض کاموں میں اللہ کی مشیت ہوتی ہے مگر رضا نہیں جیسا کہ دنیا دار الامتحان ہے یہ امتحان تبھی ہو سکتا ہے جب خیر وشر کی دونوں قوتیں موجود ہیں چنانچہ اس دنیا کو دارالامتحان بنائے رکھنے کا تقاضا ہے کہ یہ دونوں قوتیں موجود رہیں یعنی ان دونوں قوتوں کا وجود اللہ کی مشیت کا حصہ ہے لیکن ان دونوں قوتوں کو اللہ کی رضا حاصل نہیں وہ فقط خیر کی قوت کو حاصل ہے۔ اور مشیت کا بہانہ کرنے والوں کی یہ دوہری پالیسی ہے کہ وہ اللہ کی حد توڑنے مثلاً چوری، بدکاری کرنے میں تو مشیٔت کو بطور بہانہ پیش کریں گے لیکن جب گاڑی چوری ہو جائے پھر نہیں کہیں گے کہ اللہ کی مشیت ہی یونہی تھی لہٰذا جوابی کارروائی کو چھوڑو۔ ایک عور ت یہ تو کہہ دے گی قسمت میں لکھا ہوا تو نماز پڑھ لیں گے یہ نہیں کہے گی قسمت میں لکھا ہوا تو نیا سوٹ لے لوں گی بلکہ وہ لڑ کر لے لیتی ہے۔ |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |