سورۃ النور پانچویں رکوع کی پہلی آیت ﴿اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ سے ماخوذ ہے۔[1] نزول کا پس منظر سورۃ نور غزوئہ بنی مطلق کے بعد ۶ ہجری میں نازل ہوئی اور غزوئہ بنی مصطلق غزوئہ احزاب یا غزوئہ خندق کے بعد واقع ہوا تھا، غزوہ خندق کے موقع پر اتحادی کافروں کا لشکر دس ہزار کے لگ بھگ تھا اور یہ لشکر ایک ماہ بعد ناکام لوٹا تھا اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج کے بعد قریش ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے بلکہ اب ہم ان پر حملہ آور ہوا کریں گے جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسلام اور اسلامی ریاست اتنی مضبوط اور اپنے پاؤں پر قائم ہو چکی تھی اور کفر کی تمام قومیں جس میں مشرکین مکہ دوسرے مشرک عرب قبائل مدینہ کے یہود اور منافقین سب شامل تھے میں اب اتنی سکت باقی نہ رہ گئی تھی کہ سب مل کر بھی مدینہ پر حملہ آور ہو سکیں میدان جنگ میں مات کھانے کے بعد ان لوگوں نے یہ حربہ اختیار کیا کہ جس طرح بن پڑے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر کے ان میں پھوٹ ڈال کر اس طاقت کو کمزور بنا دیا جائے۔ منافق چونکہ مسلمانوں کے اندر گھسے ہوئے تھے، اس لیے وہ اس سلسلہ میں سب سے اہم کردار ادا کر سکتے تھے، غزوئہ بنی مصطلق سے واپسی پھر سفر کے دوران عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے اسی سازش کے تحت دو کارنامے سر انجام دئیے اتفاق سے انصار اور مہاجرین میں کچھ جھگڑا ہوگیا، عبداللہ بن ابی نے اس واقع کو اتنی ہوا دی اور جاہلی حمیت سے کام لے کر انصار اور بالخصوص منافقوں کو اتنا برا فروختہ کر دیا قریب تھا کہ ان میں لڑائی چھڑ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فوراً موقع پر پہنچ کر حالات پر کنٹرول کیا اس دوران عبداللہ بن ابی نے بہت بکواس کی جس کا تفصیل ذکر سورۃ منافقوں میں آئے گا۔ دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا دی اور یہ واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے، اس واقعہ کا ان منافقوں نے اس قدر پروپیگنڈہ کیا کہ بعض مخلص مسلمان بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |