Maktaba Wahhabi

484 - 849
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا، اگر کسی شخص نے نکاح سے پہلے یہ کہا ہو کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو کیا حکم ہے؟ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اس صورت میں طلاق نہ ہوگی کیونکہ اللہ عزوجل نے طلاق کو نکاح کے بعد فرمایا ہے، پس نکاح سے پہلے طلاق کوئی چیز نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ابن آدم جس کا مالک نہ ہو اس میں طلاق نہیں ۔‘‘[1] طلاق دینے والے کو ہدایت اس آیت میں چند امور قابل ذکر ہیں پہلا یہ کہ آیت میں مومن عورتوں سے نکاح کا ذکر ہے تاہم اگر نکاح کتابیہ عورت سے ہو تو بھی اسی حکم میں داخل ہوگا دوسرا یہ کہ صحبت سے پیشتر طلاق دینے سے بھی نصف حق مہر دینا پڑے گا بشرطیکہ حق مہر طے ہو چکا ہو۔ (البقرۃ: ۲۳۷) تیسرا یہ کہ اگر حق مہر مقرر ہی نہ کیا گیا ہو تو پھر کچھ نہیں دینا ہوگا البتہ دونوں صورتوں میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرنا چاہیے اور اس کچھ نہ کچھ کی مقدار طلاق دینے والے کی مالی حیثیت کے مطابق ہوگی چوتھا یہ کہ اگر عورت کو طلاق ہی دینا ہے تو پھر اس پر کوئی الزام نہ لگانا چاہیے نہ ہی اسے بدنام کر کے گھر سے نکالنا چاہیے جو اس کی آئندہ زندگی پر ناخوشگوار اثر ڈالے بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا یہی مطلب ہے اور پانچواں سب سے اہم امر یہ ہے کہ عدت کے دوران بھی مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے اور یہ مرد کا عورت پر حق ہے اس دوران مرد رجوع کا حق بھی رکھتا ہے اور اس میں زبردستی بھی کر سکتا ہے علاوہ ازیں اگر اس دوران حمل معلوم ہو جائے تو بچہ بھی طلاق دینے والے مرد کا ہوگا اور وہ اس کا وارث بھی ہوگا صحبت سے پہلے طلاق دینے میں چونکہ حمل وغیرہ کا احتمال ہی نہیں ہوتا لہٰذا غیر مدخولہ عورت پر کوئی عدت نہیں وہ اگر چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کر سکتی ہے۔[2]
Flag Counter