Maktaba Wahhabi

137 - 849
ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑ جائے جس کا وہ اہل نہ ہو وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے، پھر رک جائے۔ دوسرا وہ جسے ایسی آفت پہنچے کہ اس کا سارا مال تباہ کر دے وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے، اور تیسرا وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آ گئی ہو یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین معتبر شخص اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے اسے سوال کرنا جائز ہے تاآنکہ اس کی محتاجی دور ہو جائے۔ پھر فرمایا: اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کر کے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔[1] عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم سات آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، پانچ نمازیں ادا کرو اور اللہ کی فرمانبرداری کرو اور ایک بات چپکے سے کہی کہ لوگوں سے کچھ نہ مانگنا پھر میں نے ان میں سے بعض افراد کو دیکھا کہ اگر اونٹ سے ان کا کوڑا بھی گر جاتا تو کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں پکڑا دے۔[2] حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا سرکاری وظیفہ بھی قبول نہ کرنا حکیم بن حزام کہتے ہیں : میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا، پھر ایک دفعہ مانگا تو آپ نے دیا، پھر فرمایا: اے حکیم! یہ دنیا کا مال دیکھنے میں خوش نما اور مزے میں میٹھا ہے لیکن جو اسے سیر چشمی سے لے اس کو تو برکت ہو گی اور جو جان لڑا کر حرص کے ساتھ لے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نچلے سے بہتر ہے۔ حکیم کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا! میں آج کے بعد مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔ (پھر آپ کا یہ حال رہا کہ) سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کو سالانہ وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو وہ لینے سے انکار کر دیتے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں انہیں وظیفہ دینے کے لیے بلایا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے لوگو! تم گواہ رہنا میں حکیم کو اس کا حق جو غنائم کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں اور وہ نہیں لیتے۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے عہد کا اتنا پاس تھا کہ انہوں نے تاحین حیات سوال تو درکنار کسی سے کوئی بھی چیز قبول نہیں کی۔[3]
Flag Counter