سورۃ محمد آیت نمبر ۲ کے فقرے ﴿وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ﴾ سے ماخوذ ہے اور اس کے علاوہ اس کا ایک اور مشہور نام قتال بھی ہے جو آیت نمبر ۲۰ کے فقرے وَ ذُکِرَ فِیْہَا الْقِتَالُ سے ماخوذ ہے۔ [1] سورۃ کے نزول کا پس منظر سورۃ محمد ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئیں مکہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے دشمن صرف قریش تھے لیکن مدینہ جانے کے بعد جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست بھی قائم ہوگئی تو مسلمانوں کے دشمنوں میں اضافہ ہوگیا قریش مکہ نے بھی اپنی دشمنی ترک نہیں کی، یہود سے اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جاتے ہی ایک دفاعی معاہدہ کر لیا تھا لیکن یہود ایک عہد شکن قوم ہے ان کی ساز باز قریش مکہ کے ساتھ رہتی تھی اور قریش مکہ بھی اس دفاعی سمجھوتہ کے باوجود انہیں اپنا ہی حلیف سمجھتے تھے، منافقین بھی مسلمانوں کے لیے مار آستین بنے ہوئے تھے اور درپردہ ان کی سب ہمدردیاں یہود کے ساتھ تھیں اور یہ اس لحاظ سے بھی خطرناک تھے کہ مسلمانوں کے راز اور تدبیروں سے یہود اور دوسرے دشمنوں کو باخبر رکھتے تھے علاوہ ازیں اردگرد کے مشرک قبائل عرب بھی اس چھوٹی سی نئی مسلم ریاست کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد دو ہی راستے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کو یہ فائدہ تو ہوگیا کہ اب وہ آزادی کے ساتھ قرآن پڑھ سکتے، ارکان اسلام بجا لاتے تبلیغ کر سکتے تھے مگر یہاں چاروں طرف وہ دشمن کے نرغے میں گھرے ہوئے تھے۔ مہاجرین کی آبادکاری اور معاشی پریشانیوں کا مسئلہ الگ تھا ان حالات میں مسلمانوں کے پاس دو ہی راستے تھے ایک یہ کہ ان مشکلات سے گھبرا کر دشمن کے آگے گھٹنے ٹیک دیں اور دوسرا یہ کہ سر دھڑ کی بازی لگا کر کفر کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور اللہ پر توکل کریں اسی پس منظر میں یہ سورت نازل ہوئی مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی اور اللہ پر توکل رکھتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔[2] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |