نہیں ، اس لیے کہ اس نے مال دے کر اپنے آپ کو آزاد کرا لیا ہے۔ ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کر سکتے ہیں ۔[1] تیسری طلاق خاوند نے جب تیسری طلاق دے دی تو اب وہ اس کے لیے حرام ہو گئی، عورت پر عدت ہے مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کر سکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی فقط یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے پھر کسی وقت وہ مرد ازخود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہو جائے تو پھر عدت گزارنے کے بعد یہ عورت پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے۔[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے وہ دوسرا نکاح کرتی ہے وہ بھی اسی طرح دخول سے پہلے طلاق دے دیتا ہے تو کیا اگلے خاوند کو اس سے نکاح کرنا حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں نہیں جب تک کہ وہ اس سے اور یہ اس سے لطف اندوز نہ ہو لیں ۔‘‘[3] نکاح حلالہ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو حلال کرنے کی خاطر کسی سے اس کا اس شرط پر نکاح کرائے کہ وہ نکاح کے بعد تیسرے دوسرے دن اسے طلاق دے دے گا تاکہ یہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہو سکے (جسے شرعی اصطلاح میں حلالہ کہتے ہیں ) تو یہ نکاح درست نہیں بلکہ یہ بدکاری ہو گی۔ اس طرح کے سازشی نکاح و طلاق سے وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے ہرگز حلال نہ ہو گی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے پر لعنت کی ہے اور حلالہ نکالنے والے کو ’’تیئس مستعار‘‘ کرائے کا سانڈھ کہا ہے۔[4] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ ایسے حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے کو زنا کی سزا دی جائے۔[5] اس مسئلے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے کا جرم مرد کرتا ہے جبکہ سزا عورت کو دی جاتی ہے یعنی کرے کوئی اور بھرے کوئی۔[6] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |