Maktaba Wahhabi

428 - 849
سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ افک تفسیر:… یہ بدترین جھوٹ کا نام ہے یہ (افک الشیٔ) سے ماخوذ ہے جب چیز کو اس کی اصل صورت سے پھیر دیا جائے تب یہ بولا جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بہتان ہے۔ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ آیت میں واقعہ افک سے مراد ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگنے والا بہتان ہے اور اللہ نے اسے افک اس لیے کہا کیونکہ ان کی حالت اس الزام کے برعکس معروف تھی۔ عصبۃ دس سے لے کر چالیس تک جماعت پر بولا جاتا ہے یہاں اس سے مراد منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی، زید بن رفاعہ، حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش اور ان کے معاون ومددگار ہیں ۔[1] افک میں ملوث مسلمان اور ان پر حد ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس طوفان کا چرچا (مسلمانوں میں سے) دو مرد کرنے والے تھے مسطح بن اثاثہ اور حسان بن ثابت، تیسرا عبداللہ بن ابی بن سلول منافق تھا جو کرید کرید کر پوچھتا پھر اس پر حاشیے چڑھاتا وہی اس طوفان کا بانی مبانی تھا اور ﴿وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ﴾ سے وہ اور حمنہ بنت جحش مراد ہیں ۔‘‘ (عبداللہ بن ابی منافق کے سوا تینوں پر حد قذف لگی تھی)۔ [2] عبداللہ بن ابی کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے نہیں لگائے، اس کی وجہ بارے ائمہ مختلف ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ آخرت میں اس کے لیے عذاب عظیم کو وافر کرنے کے لیے، اور دوسروں کو حدلگائی گئی تاکہ ان کے گناہوں کی بخشش کا سامان ہو جائے جس طرح کہ حدود میں آپ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا تھا کہ ’’یہ جس پر قائم کر دی جائے اس کے لیے کفارہ بن جاتی ہے۔ دوسرا قول ہے اس کو حد اس کی قوم کی دلجوئی اور اس کے بیٹے کے احترام میں نہیں لگائی گئی اس کا بیٹا صالح مومن تھا۔ اور فتنے کی آگ بجھانے کی غرض سے جس کے ابتدائی آثار سعد بن عبادہ اور اس کے ساتھیوں میں نظر آنے لگے تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔[3] واقعہ افک ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ سفر میں جانے کے وقت آپ اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ
Flag Counter