Maktaba Wahhabi

88 - 849
﴿ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو، پھر اگر تم روک دیے جاؤ تو قربانی میں سے جو میسر ہو (کرو) اور اپنے سروں کو نہ مونڈو، یہاں تک کہ قربانی اپنے حلال ہونے کی جگہ پر پہنچ جائے، پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا اسے اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو روزے یا صدقے یا قربانی میں سے کوئی ایک فدیہ ہے۔ پھر جب تم امن میں ہو جاؤ تو تم میں سے جو عمرہ سے حج تک فائدہ اٹھائے تو قربانی میں سے جو میسر ہو (کرے) پھر جو نہ پائے تو تین دن کے روزے حج کے دوران اور سات دن کے اس وقت رکھے جب تم واپس جاؤ، یہ پورے دس ہیں ۔ یہ اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ بہت سخت عذاب والا ہے۔‘‘ تفسیر:… تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حج و عمرے کو شروع کرنے کے بعد انہیں پورا کرنا لازم ہے گو عمرے کے واجب ہونے اور مستحب ہونے میں علماء کے دو اقوال ہیں ۔[1] عمرے کا حکم مالک، نخعی رحمہما اللہ اور اصحاب الرأی جس طرح کہ ابن منذر ان سے بیان کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ سنت ہے اور اسے سنت کہنے والوں میں سے ابن مسعود اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بھی ہیں ۔[2] احصار اور اس کا فدیہ جس نے حج یا عمرے کااحرام باندھا پھر کسی پریشان کن مرض یا دشمن کے روکنے پر وہ محبوس ہو گیا ہے تو اس کے ذمے بکری یا بکری سے بڑھ کر جو قربانی میسر ہو اسے کرنا لازم ہے اگر تو اسلامی حج (مراد فرض) ہے تو
Flag Counter