بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ﴾ ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے بعض بعض کے دوست ہیں ، اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔‘‘ مسلمان غیر مسلموں کا دوست نہیں ہوتا اوپر مسلمانوں کی کارسازی اور رفاقت و ولایت کا ذکر ہوا۔ اب یہاں کافروں کی نسبت بھی بیان فرما کر کافروں اور مومنوں میں سے دوستانہ کاٹ دیا۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے نہ مسلمان کافر کا وارث اور نہ کافر مسلمان کا وارث۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔[1] صحیح بخاری و مسلم میں بھی ہے مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔[2] ابن جریر میں ہے کہ ایک نئے مسلمان سے آپ نے عہد کیا کہ ’’نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور جب جہاں شرک کی آگ بھڑک اٹھے تو اپنے آپ کو ان کا مقابل اور ان سے برسر جنگ سمجھنا۔‘‘[3] ایک مفصل روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین میں ٹھہرا رہے کیا یہ دونوں جانب لگی ہوئی آگ نہیں دیکھتا۔‘‘[4] سنن ابو داؤد میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو مشرکین میں ملا جلا رہے اور ان میں ٹھہرا رہے وہ انہی جیسا ہے۔‘‘[5] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |