Maktaba Wahhabi

214 - 849
ہے دل نہیں ملا چھوڑ دینا چاہتا ہے تو اس صورت میں حق مہر کے علاوہ بھی تمام حقوق دینے پڑیں گے اس صورت حال سے بچنے کے لیے اسے ستانا یا طرح طرح سے تنگ کرنا تاکہ وہ خود اپنے حقوق چھوڑ کر چلے جانے پر آمادہ ہو جائے ایسا رویہ اختیار کرنے سے قرآن پاک نے مسلمانوں کو روک دیا ہے۔ ابن سلمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ان دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت امر جاہلیت کو ختم کرنے اور دوسری امر اسلام کی اصلاح کے لیے نازل ہوئی ابن مبارک بھی یہی فرماتے ہیں : مگر اس صورت میں کہ ان سے کھلی بے حیائی کا کام صادر ہو جائے اس سے مراد بقول اکثر مفسرین صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین وغیرہ زنا کاری ہے، یعنی اس صورت میں جائز ہے کہ اس سے مہر لوٹا لینا چاہیے اور اسے تنگ کرے تاکہ خلع پر رضامند ہو جائے جیسے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر (۲۲۹) میں ہے … بعض بزرگوں نے فرمایا ﴿فَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ﴾ سے مراد خاوند کے خلاف کام کرنا ہے۔ اس کی نافرمانی کرنا بدزبانی، کج خلقی کرنا، حقوق زوجیت اچھی طرح ادا نہ کرنا وغیرہ ہے۔‘‘[1] امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ آیت کے الفاظ عام ہیں زنا کو اور تمام مذکورہ عوامل کو بھی شامل ہیں یعنی ان تمام صورتوں میں خاوند کو مباح ہے کہ اسے تنگ کرے تاکہ وہ اپنا کل حق یا تھوڑا حق چھوڑ دے اور پھر یہ اسے الگ کر دے امام صاحب کا یہ فرمان بہت ہی مناسب ہے۔ و اللہ اعلم۔[2] بیویوں سے حسن معاشرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرنے والا ہو میں اپنی بیویوں سے بہت اچھا رویہ رکھتا ہوں ۔‘‘[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ بہت لطف و خوشی بہت نرم اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے انہیں خوش رکھتے تھے ان سے ہنسی دل لگی کی باتیں کرتے تھے ان کے دل اپنی مٹھی میں رکھتے تھے انہیں اچھی طرح کھانے پینے کو دیتے تھے کشادہ دل کے ساتھ ان پر خرچ کرتے تھے۔ ایسی خوش طبعی کی باتیں بیان کرتے جن سے وہ ہنس دیتیں ایسا بھی ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ نے دوڑ لگائی اس دوڑ میں صدیقہ رضی اللہ عنہا آگے نکل گئیں ، کچھ مدت بعد پھر دوڑ لگی اب کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پیچھے رہ گئیں تو آپ نے فرمایا معاملہ برابر ہو گیا۔[4]
Flag Counter