لے پالک کی بیوی دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ﴾ (الاحزاب: ۳۷) ’’پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے آپ سے اس کا نکاح کر دیا، تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ ہو۔‘‘ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ جب آنحضرت نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی بیوی سے نکاح کر لیا تو مکہ کے مشرکوں نے کائیں کائیں شروع کر دی اس پر یہ آیت اور آیت ﴿وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَ کُمْ اَبْنَآئَ کُمْ﴾ (الاحزاب: ۴) اور ﴿وَ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ﴾ (الاحزاب: ۴۰) نازل ہوئیں ۔[1] یعنی بے شک صلبی لڑکے کی بیوی حرام ہے تمہارے لے پالک لڑکے شرعا تمہاری اولاد کے حکم میں نہیں ۔ آنحضرت تم سے کسی مرد کے باپ نہیں ۔ حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں مبہم ہیں جیسے تمہارے لڑکوں کی بیویاں ، تمہاری ساسیں ۔ حضرت طاؤس، زہری، ابراہیم اور مکحول سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ میرے خیال میں مبہم سے مراد عام ہے، یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں اور صرف نکاح کرتے ہی حرمت ثابت ہو جاتی ہے خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس مسئلہ پر اتفاق ہے۔ رضاعی بیٹے کی منکوحہ: اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہو گی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت آنحضرت کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسبت سے حرام ہے۔ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے بعض لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔[2] ﴿وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ﴾ پھر فرماتا ہے: دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے۔ اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے کہ دو بہنوں سے ایک ہی وقت وطی حرام ہے مگر جاہلیت کے زمانے میں جو ہو چکا اس سے ہم درگزر کرتے ہیں ، پس معلوم ہوا اب یہ کام کسی وقت جائز نہیں جیسے اور جگہ ہے ﴿لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْہَا الْمَوْتَ اِِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰی﴾ (الدخان: ۵۶) یعنی ’’وہ اس میں موت کا مزہ نہیں چکھیں گے، مگر وہ موت |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |