﴿فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ﴾ ’’پس اگر تم نے ان سے دخول (جماع) نہیں کیا تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘ یعنی ’’ربائب‘‘ سے نکاح کرنے میں یہ آیت کے پہلے حصے کے مفہوم کے مدلول کی تصریح ہے۔[1] جمہور کا فرمان ہے کہ خواہ گود میں پلے ہوں یا نہ پلے ہوں حرام ہیں ، چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور اپنے سوتیلے باپوں کے ہاں ہی پرورش پاتی ہیں اس لیے یہ کہہ دیا گیا ہے ورنہ یہ کوئی قید نہیں ۔ جیسے اس آیت میں ﴿وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ اِِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا﴾ (النور: ۳۳) یعنی تمہاری لونڈیاں اگر پاک دامن رہنا چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر بے بس نہ کرو۔ یہاں بھی یہ قید ہے کہ اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں صرف باعتبار واقعہ کے غلبہ کے ہے یہ نہیں کہ اگر وہ ایسی نہ ہوں تو انہیں بدکاری پر آمادہ کرو اسی طرح اس آیت میں ہے کہ گود میں چاہے نہ ہوں پھر بھی حرام ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا :اے اللہ کے رسول! آپ میری بہن ابو سفیان کی لڑکی عزہ سے نکاح کر لیں ۔ آپ نے فرمایا: کیا تم یہ چاہتی ہو؟ ام المومنین نے کہا: ہاں ، میں آپ کو خالی تو نہیں رکھ سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں ؟ آپ نے فرمایا: سنو مجھ پر وہ حلال نہیں ۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے تو سنا ہے کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ان کی وہ بیٹی جو ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہے؟ کہا: ہاں ۔ فرمایا: اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ میری ربیبہ ہے جو میرے ہاں پرورش پا رہی ہے دوسری یہ کہ ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں ، اس لیے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہے مجھے اور اس کے باپ ابو سلمہ کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے۔ خبردار مجھ پر اپنی بیٹیاں اور بہنیں پیش نہ کرو۔[2] ﴿وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ﴾ حلائل یہ حلیلۃ کی جمع ہے جو کہ زوجہ ہوتی ہے یہ نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ وہ جہاں شوہر اترتا ہے وہیں اترتی ہے، چنانچہ یہ فعیلہ بمعنی فاعلہ ہے۔[3] پھر فرمایا: تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں ، یعنی لے پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں لیکن سگے لڑکے کی بیوی یعنی بہو اپنے سسر پر حرام ہے۔ |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |