سورۃ النحل آیت ۶۸ کے فقرے ﴿وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ﴾ سے ماخوذ ہے یہ بھی محض علامت ہے نہ کہ موضوع بحث کا عنوان۔[1] زمانۂ نزول سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : اس کے آخر کی تین آیتوں کے سوا سورۃ النحل مکہ میں نازل ہوئی۔ یہ تین آیتیں مکہ و مدینہ کے درمیان جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد سے لوٹ رہے تھے تب نازل ہوئیں ۔ اس سورت کا ایک نام ’’اَلنِّعَم‘‘ (نعمتیں ) ہے کیونکہ اس میں اللہ نے انہیں شمار کیا ہے۔[2] مباحث سورت کا آغاز بغیر کسی تمہید کے یک لخت ایک تنبیہی جملے سے ہوتا ہے۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ ’’جب ہم تمہیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں تو آخر وہ خدا کا عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہو۔ اس بات کو وہ بالکل تکیہ کلام کی طرح اس لیے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے بڑا صریح ثبوت تھا۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو! خدا کا عذاب تو تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے اب اس کے ٹوٹ پڑنے کے لیے جلدی نہ مچاؤ بلکہ جو ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد فوراً ہی تفہیم کی تقریر شروع ہو جاتی ہے اور حسب ذیل مضامین بار بار یکے بعد دیگرے سامنے آنا شروع ہوتے ہیں : ۱۔ دل لگتے دلائل اور آفاق و انفس کے آثار کی کھلی کھلی شہادتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حق ہے۔ ۲۔ منکرین کے اعتراضات، شکوک حجتوں اور حیلوں کا ایک ایک کر کے جواب دیا جاتا ہے۔ |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |