کی تلقین کافی ہے۔ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ’’شہر سے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا، بجز جماع کے۔ اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو چاہیں مجھے سزا دیں ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب اللہ نے پردہ ڈال دیا تھا تو تو بھی پردہ پڑا رہنے دیتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا، پھر آپ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی: ﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ﴾ (ہود: ۱۱۴) ’’نماز قائم کیجیے دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزارنے پر نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔‘‘ ایک شخص نے پوچھا: کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں سب کے لیے ہے۔[1] یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کیے بغیر اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جائے کہ توکس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجئے۔ آپ نے فرمایا: کیا تو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس نے عرض کیا جی ہاں ! فرمایا: بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کر دیا۔[2] کیا جرم کی اطلاع کرنا ضروری ہے؟ اطلاع عدالت پہنچ جانے کے بعد قاضی معاف کر سکتا ہے؟ اسلامی قانون لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی حکام تک خبر پہنچائیں البتہ جب حکام اس پر مطلع ہو جائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ اَتَی شَیْئًا مِنْ ہٰذِہِ الْقَاذُوْرَاتِ فَلْیَسْتَرِ بسِتْرِ اللّٰہِ فَاِنْ اَبْدَی لَنَا صَفْحَتَہٗ اَقَمْنَا عَلَیہ کِتَابَ اللّٰہِ۔))[3] ’’تم میں سے جو شخص ان گندے کاموں میں سے کسی کا مرتکب ہو جائے تو اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھپا رہے لیکن اگر ہمارے سامنے اپنے پردے کو کھولے گا تو ہم اس پر کتاب اللہ کا قانون نافذ کر کے چھوڑیں گے۔‘‘ ابوداؤد اور نسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا: (تَعَافُو الْحُدُوْدَ فِیْ مَا بَیْنَکُم فَمَا |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |