Maktaba Wahhabi

102 - 849
تو اسے اختیار ہے کہ یا تو اپنی بیوی سے تعلق قائم کر لے اور وہ پہلے کی طرح مدت گزرنے پر اس کی بیوی کے طور پر باقی رہے یا پھر اسے طلاق دے دے اس کا حکم ایسے شخص کا سا ہو گا جو ابتدائً اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہے۔ بہرحال جب اس نے چار ماہ سے کم وقت مقرر کیا ہو اگر وہ اپنی قسم پوری کرنا چاہے تو مدت گزرنے تک اپنی بیوی سے جدا رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا جب انہوں نے اپنی عورتوں سے مہینہ بھر کے لیے ایلاء کر لیا تھا حتیٰ کہ مہینہ گزر گیا اور اگر چار مہینے سے کم مدت جو اس نے طے کی تھی اس کے گزرنے سے پہلے وہ زن و شو والے تعلق قائم کرنا چاہے تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور اس کے ذمے کفارہ لازم ہو گا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والی اس صحیح حدیث کی پیروی کرنے والا ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ حَلَفَ عَلٰی شَیْئٍ فَرَاٰی غَیْرَہٗ خَیْرًا مِّنْہُ فَلْیَاْتِ الَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ مِّنْہُ وَ لِیُکَفِّرْ عَنْ یَّمِیْنِہٖ))[1] ’’جس نے کسی شے کی قسم اٹھائی پھر اس کے غیر کو اس سے بہتر خیال کیا تو وہ اس سے بہتر کام کو کر لے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔‘‘ مطلق ایلاء کرنے والا اگر چار مہینے کے بعد رجوع کرنا چاہے جمہور علماء کے مطابق یہ چار ماہ تک آزاد ہیں اس کے بعد انہیں مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی بیوی سے مل لیں یا طلاق دے دیں ۔ پھر اگر وہ لوٹ آئیں تو یہ اشارہ جماع کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی بخش دے گا اور جو تقصیر عورت کے حق میں ان سے ہوئی اسے اپنی مہربانی سے معاف کر دے گا۔[2]علماء کی ایک دوسری جماعت کا یہ مذہب ہے کہ اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے۔ و اللہ اعلم۔[3] کیا چار ماہ گزرتے ہی طلاق ہو جائے گی؟ پھر فرمان ہے: ’’اگر چار ماہ گزر جانے کے بعد وہ طلاق دینے کا قصد کرے‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہی طلاق نہیں ہو گی جمہور متاخرین کا یہی مذہب ہے۔ بلکہ اب ایلاء کرنے والے کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ قسم توڑے یا طلاق دے۔ موطا امام مالک میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے۔[4] اگر طلاق نہ دے تو حاکم خود اس کی طرف سے طلاق دے دے گا مگر یہ طلاق رجعی ہو گی عدت کے اندر رجعت کا حق خاوند کو حاصل ہو گا۔[5]
Flag Counter