Maktaba Wahhabi

194 - 849
قرآن میں مذکور اولاد کی وراثت کے حصے سب سے پہلے اولاد کے حصوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس میں یہ کلیہ ذکر کیا گیا ہے کہ ہر لڑکے کا حصہ لڑکی سے دوگنا ہو گا یہ اس لیے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد پر ڈالا ہے اور عورت کو اس سے سبک دوش کر دیا ہے اور جب مرد کمانے کے قابل نہیں رہتا مثلاً باپ دادا وغیرہ تو اس کا حصہ عورت، یعنی ماں دادی وغیرہ کے برابر ہوتا ہے۔[1] ائمہ نے اس بارے اختلاف کیا ہے کہ کیا اولاد کی اولاد، اولاد کے حکم میں داخل ہو گی یا نہیں … جبکہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پوتے میراث کے معاملے میں ان کے (بیٹوں کی) عدم موجودگی میں بیٹوں کی طرح ہی ہوتے ہیں … اس اولاد میں سے جو کافر ہے وہ بھی لفظ اولاد کے ضمن میں آئے گا، لیکن سنت کی وجہ سے وہ ورثاء کی جماعت سے باہر ہو جائے گا۔ ایسے ہی جان بوجھ کر مُوَرِّث کو قتل کرنے والا بھی سنت اور اجماع کے سبب ورثاء کی جماعت سے باہر ہو جائے گا۔ نیز مخنث (ہیجڑا) اولاد کی ذیل میں داخل ہو گا۔ امام قرطبی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ ہیجڑا جس راستے سے پیشاب کرتا ہے اسی اعتبار سے اسے وارث بنایا جائے گا، پھر اگر وہ دونوں راستوں سے کرے تو جس سے پہلے پیشاب نکلے اس اعتبار سے، پھر اگر دونوں راستوں سے بیک وقت ہی پیشاب نکلتا ہے تو اسے آدھا حصہ مذکر کے اعتبار سے اور آدھا مونث کے اعتبار سے دیا جائے گا۔ نیز علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ جب اولاد کے ساتھ کوئی مقرر حصے والا فرد ہو تو وہ اسے دے دیا جائے گا اور جو مال باقی بچ جائے وہ مذکر کے لیے ہو گا، دو مونثوں کے برابر۔کیونکہ صحیحین وغیرہ میں حدیث ہے، جس کے یہ الفاظ ہیں : ((اَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِاَہْلِہَا فَمَا اَبْقَتِ الْفَرَائِضُ فَلِاَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ)) ’’مقرر شدہ حصے ان کے حق داروں کے سپرد کر دو جو حصے حق داروں سے بچے رہیں تو وہ قریبی مرد کے لیے ہیں ۔‘‘ نیز اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے نصیحت کرتا ہے کہ ان میں سے مذکر کو دو مونثوں جتنا حصہ دینا ہے، اس سے مراد مذکر و مونث کے اکٹھے ہونے کی حالت میں ہے۔ بہرحال جب انفرادی حالت ہو تو مذکر کے لیے ساری میراث ہو گی جبکہ مونث کے لیے آدھی اور دو یا دو سے زیادہ کے لیے دو تہائی۔[2]
Flag Counter