Maktaba Wahhabi

407 - 849
نکلتا ہے اسی اصول کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ہے، آپ برائی کا جواب بھلائی سے دیا کیجئے اس طرح تمہارا دشمن بھی دلی دوست بن جائے گا۔ (۴۱/ ۳۴) نیز یہ جملہ ایک ایسی آفاقی حقیقت (Universal truth ) ہے جس کا ہر شخص ہر حال میں اور ہر زمانہ میں تجربہ کر کے اس کے خوشگوار اثرات سے مستفید ہوتا رہا ہے اور ہو سکتا ہے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اصول جتنا مفید ہے اتنا ہی اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہے یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ، صاحب عزم انسان ہی اس پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں ۔[1] سیّدنا انس رضی اللہ عنہ (ادفع بالتی ہی احسن) کی تشریح میں فرماتے ہیں : ایک آدمی دوسرے کو ایسی بات کہے جو اس میں نہ ہو تو یہ جواباً کہے اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھے بخشے اور اگر سچا ہے تو اللہ مجھے بخشے۔[2] شیطان سے بچنے کی دعائیں انسان کو برائی سے بچنے کی بہترین ترکیب بتا کر پھر شیطان سے بچنے کی ترکیب بتائی جاتی ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان سے بچا لے اس لیے کہ اس کے فن فریب سے بچنے کا ہتھیار تمہارے پاس سوائے اس کے اور نہیں وہ سلوک و احسان سے بس میں آنے کا نہیں ۔ استعاذہ کے بیان میں ہم لکھ آئے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ((أَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ۔)) پڑھا کرتے تھے۔ اور میں پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان میرے کسی کام میں حائل ہو اور وہ میرے پاس پہنچ جائے بس ہر ایک کام کے شروع میں اللہ کا ذکر شیطان کی شمولیت کو روک دیتا ہے کھانا پینا جماع، ذبح وغیرہ کل کاموں کے شروع کرنے سے پہلے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔ ابوداود میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا یہ بھی تھی: (( أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْہَدْمِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنَ التَّرَدِّي وَأَعُوْذُبِکَ مِنَ الْغَرَقِ وَالْحَرَقِ وَالْہَرَمِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ أَنْ یَّتَخَبَّطَنِيَ الشَّیْطَانُ عِنْدَ الْمَوتِ۔))[3] ’’اے اللہ! میں تجھ سے برے بڑھاپے اور ڈوب کر مر جانے سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی کہ موت کے وقت شیطان مجھے بہکاوے۔‘‘ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایک دعا سکھاتے تھے کہ نیند اچاٹ ہو جانے کے مرض کو دور
Flag Counter