Maktaba Wahhabi

365 - 849
ختم ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور یقینا ہم ان لوگوں کو جنھوں نے صبر کیا، ضرور ان کا اجر بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ تفسیر:… ﴿وَ اَوْفُوْا بِعَہْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ﴾ اس کا ظاہر یہی بتا رہا ہے کہ یہ انسان کی طرف سے واقع ہونے والے ہر عہد کو عام ہے اس میں عہد بیعت وغیرہ کا کوئی فرق نہیں ۔ ﴿وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِہَا﴾ ’’قسموں کو ان کے پختہ ہونے کے بعد مت توڑو۔‘‘ یعنی ان کے سخت مضبوط اور پختہ ہو جانے کے بعد۔ یہاں یہ مقصد نہیں کہ یہ نہی فقط انہی قسموں کے ساتھ خاص ہے جو موکدہ ہوں اور جن کی تاکید نہیں ہوئی وہ مراد نہ ہوں ۔ بلکہ بلاشبہ قسم توڑنے کی حرمت سب قسموں کو شامل ہے لیکن موکدہ قسم کو توڑنے کا گناہ غیر موکدہ کو توڑنے سے شدید تر ہے۔[1] غرض معاہدہ کسی قسم کا ہو اسے بہرصورت نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس سے فرار کی راہیں تلاش نہیں کرنی چاہئیں ۔ موقع پرستی اور مفاد پرستی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اپنے لیے سازگار حالات کو دیکھ کر عہد کو خراب کرنا اور اس کی ناجائز تاویلات کر کے اپنا الو سیدھا کرنا منافقوں کا کام ہوتا ہے۔[2] معاہدوں کو توڑنے کی ممانعت مکہ میں ایک دیوانی عورت رہتی تھی جس کا نام خرقاء (توڑ پھوڑ دینے والی) پڑ گیا تھا۔ دن بھر سوت کاتتی رہتی پھر اسے توڑ پھوڑ کر پھینک دیتی۔[3] اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے معاہدات کو کچے دھاگے کی طرح مت سمجھو کہ جب چاہا اپنا معاہدہ توڑ دیا اور اس عورت کی طرح دیوانے نہ بنو۔ عرب کے کافر قبیلوں کا یہ حال تھا کہ ایک قبیلے سے دوستی کا عہد کرتے اور قسمیں کھاتے پھر دوسرے قبیلے کو اس سے زبردست پا کر پہلا عہد توڑ ڈالتے اور اس قبیلے سے عہد کر لیتے اور بعض قبیلوں نے مسلمانوں سے بھی ایسا ہی معاملہ کیا پہلے ان سے دوستی کا عہد باندھا پھر کسی موقع پر قریش مکہ کا پلڑا بھاری دیکھا تو مسلمانوں سے عہد شکنی کر کے ان سے دوستی کر لی مسلمانوں کو اس قسم کی مفاد پرستی سے سختی سے روک دیا گیا۔[4]
Flag Counter