بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿٢٠﴾ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ﴾ ’’اور وہ لوگ جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خودپیدا کیے جاتے ہیں ۔ مردے ہیں ، زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘ ۳۔ باطل پر اصرار اور حق کے مقابلے میں استکبار کے برے نتائج سے ڈرایا جاتا ہے۔ ۴۔ ان اخلاقی اور عملی تغیرات کو مجمل مگر دل نشین انداز سے بیان کیا جاتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین انسانی زندگی میں لانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں مشرکین کو بتایا جاتا ہے کہ خدا کو رب ماننا جس کا انہیں دعویٰ تھا محض خالی خولی مان لینا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے جو عقائد اخلاق اور عملی زندگی میں نمودار ہونے چاہئیں ۔ ۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آ کے ساتھیوں کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کفار کی مزاحمتوں اور جفاکاریوں کے مقابلے میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔[1] تفسیر:… ان کے بنائے ہوئے شریکوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی چیز کو پیدا تو کیا خاک کریں گے وہ تو خود مخلوق ہیں اور جو مخلوق ہو وہ اپنے بنانے والے کا محتاج بھی ہو گا نیز جو چیز مخلوق ہو وہ ضرور فنا بھی ہو گی، لہٰذا ایسے شریک نہ تو خود الٰہ ہو سکتے ہیں اور نہ صفات الٰہیہ میں اللہ کے شریک بن سکتے ہیں ۔ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ سے مراد صرف بت نہیں ان دو آیات سے صاف واضح ہے کہ یہاں ایسے معبودوں کو ذکر نہیں کیا جا رہا جو بے جان ہیں مثلاً سورج، چاند ستارے، شجر و حجر اور لکڑی یا پتھر یا مٹی وغیرہ کے بت۔ کیونکہ ان کے لیے بعث بعد الموت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جاندار یا ذوی العقول میں سے فرشتوں ، فوت شدگان انبیاء، اولیاء اور صالحین کو خدائی صفات میں شریک بنایا جاتا رہا ہے ان میں فرشتوں پر ﴿اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ﴾ کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ زندہ ہیں مرتے نہیں باقی صرف اصحاب قبور ہی رہ جاتے ہیں جن پر ﴿اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ﴾ کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے اور ان کے لیے بعث بعد الموت بھی ضروری ہے۔ گویا ﴿الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |