Maktaba Wahhabi

362 - 849
اللّٰہِ﴾ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین ہیں جنہیں ان کی وفات کے بعد فریاد رس، غوث، داتا گنج بخش وغیرہ القاب دے ڈالے گئے اور صفات الوہیت میں انہیں اللہ کا شریک بنا لیا گیا اس قسم کا شرک بھی عرب میں عام پایا جاتا تھا، چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیں گے تو آپ کی قبر مرجع خاص و عام بنا دی جاتی۔[1] کتاب الصلاۃ میں جو حدیث سیّدنا جندب سے مروی ہے اس میں یہود کی تخصیص نہیں نیز انبیاء کی قبروں کے ساتھ صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا ذکر ہے اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’توجہ سے سنو تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، میں تمہیں ایسی باتوں سے منع کرتا ہوں ۔‘‘ نیز سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی درج ذیل حدیث صحیح بخاری، مسند احمد، صحیح مسلم، سنن نسائی تقریباً سب کتب حدیث میں موجود ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ سب لوگ (ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر) قوم نوح کے اولیاء اللہ تھے۔ جب وہ مر گئے تو لوگ ان کی قبروں پر اعتکاف کرنے لگے پھر ان کے مجسمے بنائے اور ان کی عبادت کرنے لگے۔ پھر یہی بت قبائل عرب میں پھیل گئے۔ ان احادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں صرف بتوں ہی کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ فوت شدہ بزرگوں کو بھی صفات الوہیت میں شریک بنایا جاتا تھا اور ان آیات میں اسی قسم کے معبودوں کی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارنے کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ مخلوق تھے اور جو مخلوق ہو وہ نہ الٰہ ہو سکتی ہے اور نہ صفات الٰہیہ میں شریک بن سکتی ہے، یعنی ایسے لوگ جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ خود انہیں کب اٹھایا جائے گا وہ نہ تو تمہاری پکار سن سکتے ہیں اور نہ ہی فریاد رسی کر سکتے ہیں ۔[2]
Flag Counter