﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣﴾ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔ گنے ہوئے چند دنوں میں ، پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے، پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔‘‘ معنی صیام تفسیر:… لغوی طور پر یہ امساک، رک جانے اور ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے کو ترک کر دینے کا نام ہے۔ خاموشی کے لیے لفظ صوم، کلام سے رکنے کی وجہ سے بولا جاتا ہے۔ شرعی طور پر یہ مفطرات (کھانا، پینا اور جماع) سے رکنے کا نام ہے اور ساتھ ساتھ نیت بھی مقترن (ملی ہوئی) ہو۔ طلوع فجر سے لے کر غروب شمس تک۔[1] روزوں کی تبدیلیاں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کی تین حالتیں بدلی گئی ہیں اور روزوں کی بھی تین حالتیں بدلی گئی ہیں ، لہٰذا وہ نماز کا حال ذکر کر کے کہتے ہیں بہرحال روزوں کے احوال: (۱) بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے آ کر آپ نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا شروع کر دئیے اور آپ عاشوراء کا بھی روزہ رکھتے۔ پھر اللہ سبحانہ نے روزے فرض کر کے آپ پر یہ آیت اتار دی۔ ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ﴾ سے ﴿وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾ تک۔ (۲) اب جو چاہتا روزے رکھ لیتا اور جو چاہتا مسکین کو کھانا کھلا دیتا جو اس سے کفایت کر جاتا، پھر اللہ نے دوسری آیت نازل فرما دی ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ تو اللہ نے تندرست مقیم پر روزے لازم کر دئیے اور مریض و مسافر کو رخصت دے دی اور ایسا بوڑھا جو روزوں کی استطاعت نہیں |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |