Maktaba Wahhabi

209 - 849
حدود میں نہیں ۔ ایسے چار مسلمان عاقل بالغ اور قابل اعتماد اور معتبر آدمیوں کا اس طرح گواہی دینا کہ انہوں نے فلاں عورت کو بچشم خود دیکھا ہے۔ بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ان کڑی سزاؤں کے ساتھ چار گواہوں کا نصاب مقرر کرنے میں غالباً حکمت الٰہی یہ ہے کہ اگر کوئی ایک آدھ شخص کسی کو زنا کرتے دیکھ بھی لے تو اس برائی کو ظاہر کرنے یا پھیلانے کی ہرگز کوشش نہ کرے۔ زنا کے گواہ دراصل خود مجرم کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور اگر خدانخواستہ زنا کے گواہوں میں سے کسی ایک کی گواہی بھی نامکمل رہے یا مشکوک ہو جائے تو زانی بچ جائے گا اور گواہوں پر قذف کی حد پڑ جائے گی، اس لیے زنا کی گواہی کے لیے جانا اور گواہی دینا بذات خود بڑا خطرناک کام ہے۔[1] اغلام بازی اور چپٹی کی سزا اس آیت میں ’’والذان‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی خواہ یہ زنا کرنے والے مرد اور عورت ہوں یا دونوں مرد ہوں اور اغلام بازی کے مرتکب ہوں اس لفظ میں دونوں صورتوں کی گنجائش ہے۔ تو ایسے مردوں یا ایسے مرد اور عورت کی ابتدائی سزا یہ تھی کہ انہیں مار پیٹ کی جائے اور برا بھلا کہا جائے اور ذلیل کیا جائے گویا زانی مرد اور عورت دونوں کی یہ سزا تجویز ہوئی تھی اور عورت کے لیے یہ سزا اضافی تھی کہ اسے تازیست گھر میں بند رکھا جائے اور جس دوسری سزا کے تجویز کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا تھا۔ مندرجہ بالا آیات میں بعض لوگوں نے ’’والٰتی‘‘ سے مراد مرد اور عورت نہیں بلکہ دونوں عورتیں ہی لی ہیں جو آپس میں چپٹی بازی کر کے (جسے عربی میں سحق کہتے ہیں ) کام چلا لیتی ہیں ، ایسی دونوں عورتوں کے لیے سزا جس میں دوام ہے، یعنی گھر میں ہی ایسی عورتوں کی کڑی نگہداشت رکھی جائے اور یہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ لیکن یہ مراد کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جو سزا تجویز فرمائی وہ مرد اور عورت کے لیے تھی خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ، ہر ایک کے لیے علیحدہ سزا مقرر ہوئی جیسا کہ مندرجہ بالا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ اگر عورتیں ہی آپس میں چپٹی بازی کریں تو انہیں ان کا ولی ایسی سزا دے سکتا ہے۔ اسی طرح وَ الَّذٰنِ سے مراد اغلام بازی لی گئی ہے، یعنی ایسی بدفعلی جو مرد آپس میں کرتے ہیں اور
Flag Counter