Maktaba Wahhabi

154 - 849
برعکس اس کے یہ تمام عرب کی متواتر اور متفق علیہ روایات سے ثابت ہے کہ کعبہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے آٹھ نو سو برس پہلے گزرے ہیں ، لہٰذا کعبہ کی اوّلیت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں ۔[1] کعبہ کا پہلا بانی نیز اس کے ابتدائی بانی کے بارے اختلاف ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فرشتے اس کے ابتدائی بانی تھے۔ ایک قول ہے کہ آدم اور کہا جاتا ہے ابراہیم۔ ان اقوال کو یوں جمع کیا گیا ہے کہ پہلے اسے فرشتوں نے بنایا پھر آدم علیہ السلام نے اس کی تجدید کی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی باری آئی۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں ، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام۔ میں نے پوچھا: پھر کون سی؟ فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے کہا ان کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ فرمایا: چالیس سال۔[2] لفظ بکّۃ و مکّۃ بکّہ یہ اس حرمت والے شہر کا خاص نام ہے اور یونہی مکہ بھی اور یہ دو لغتیں ہیں ۔ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ بکّہ بیت اللہ کی جگہ کا نام ہے اور مکہ اس حرمت والے شہر کا۔ ایک قول ہے کہ بکہ مسجد کو کہتے ہیں اور مکہ سارے حرم کو۔ بتایا جاتا ہے کہ طواف میں لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے اس کا نام بکّہ رکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے بَکَّ القَوْمُ یعنی ’’قوم نے ہجوم کیا۔‘‘ ایک قول ہے ’’بک‘‘ یہ گردن توڑنے کا معنی دیتا ہے اور اس کا نام بکہ اس لیے رکھا گیا کہ یہاں بڑے جابروں کی گردنیں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ بہرحال اسے مکہ کا نام دینا تو یہ قلت پانی کی وجہ سے تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے رہنے والے کو جو مشقت پڑتی ہے وہ اس کی ہڈیوں سے گودے کو ختم کر دیتی ہے۔ اس سے یہ جملہ ہے مَکَکْتُ الْعَظْمَ جب آپ ہڈیوں سے سارا گودا نکال چکے ہوں تب یہ بولا جاتا ہے۔[3] ﴿مُبٰرَکًا﴾ اصل میں یوں ہے جو شخص بکہ میں ٹھہرتا ہے وہ مبارک ہوتا ہے اور برکت کہتے ہیں کثرت خیر کو جو اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جو اس میں ٹھہرے یا اس کا قصد کرے، یعنی کئی گنا ثواب۔[4]
Flag Counter