سورۃ ال عمران وجۂ تسمیہ اس سورۃ میں ایک مقام پر آل عمران کا ذکر آیا ہے اسی کو علامت کے طور پر اس کا نام قرار دے دیا گیا ہے۔[1] شانِ نزول اور خطاب یہ مدنی سورت ہے امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے بالاجماع بیان کیا ہے اور اس پر جو چیز روشنی ڈالتی ہے وہ یہ بات ہے کہ اس کی شروع کی تراسی (۸۳) آیتیں وفد نجران بارے نازل ہوئیں اور یہ لوگ سنہ ۹ ہجری میں آئے تھے۔[2] سورت کا خطاب خصوصیت کے ساتھ دو گروہوں کی طرف ہے ایک اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) دوسرے وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔[3] سورۂ بقرہ میں مشرکین کے علاوہ یہود پر اللہ کے انعامات، ان کی عہد شکنیوں اور ان کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر ذکر ہوا تھا جبکہ اس سورت آل عمران میں مشرکوں کے علاوہ نصاریٰ کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔[4] فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کو الزہراوین، یعنی دو جگمگانے والی سورتیں فرمایا اور امت کو انہیں پڑھتے رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ انہیں پڑھا کرو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی۔[5] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |