Maktaba Wahhabi

672 - 849
اتار کر کسی مناسب جگہ رکھ دے یا انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر اپنے پاؤں میں رکھ لے تاکہ نمازیوں کے لیے مسجد کا فرش خراب نہ ہو۔‘‘ واللہ ولی التوفیق[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟ سوال : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟ جواب : بعض لوگ قرآن کی اس آیت ﴿قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ﴾ (المآئدۃ: ۱۵) ’’تحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور واضح کتاب آئی ہے۔‘‘ اس سے ثابت کرتے ہیں کہ نور سے مراد یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چنانچہ آپ نور ہیں ان کے جواب میں مولانا عبدالرحمن کیلانی فرماتے ہیں ۔ اگرچہ اس آیت میں بعض علماء نے نور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات لی ہے تاہم اکثر مفسرین نور کو کتاب مبین ہی کی صفت قرار دیتے ہیں اور واؤ کو عطف مغایت کی بجائے عطف تفسیری سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ درج ذیل ہیں ۔ ۱۔ قرآن میں نور کا لفظ کتب سماویہ کے لیے آیا ہے: اس آیت کی ابتداء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پہلے ہی آچکا ہے یہ آیت یوں شروع ہوتی ہے: ﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلُنَا﴾ ۲۔ اگر نور اور کتاب مبین دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو بعد والی آیت میں یَہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ کی بجائے یہدی بہما اللّٰہ آنا چاہیے تھا۔ ۳۔ قرآن میں قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کو ہی بہت سے مقامات پر نور کہا گیا ہے۔ مثلاً ﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا﴾ (النسا، المائدہ، الانعام، الاعراف، الشوریٰ) ٭ …نور و بشر کی بحث: ہر مقام پر اس کے برعکس انبیاء کو بشر ہی کہا گیا ہے البتہ ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سراجا منیرا (روشنی دینے والا چراغ) بھی کہا گیا ہے۔ (۳۳/ ۴۶) تاہم اگر یہاں نور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی لیا جائے تو اس سے مراد نور نبوت اور نور ہدایت ہوگا۔کنز الایمان اور اس پر نعیم الدین صاحب مراد آبادی کا حاشیہ ’’خزائن العرفان‘‘ یوں ہے: ’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب‘‘[2] اور اس پر حاشیہ ہے کہ ’’سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا، کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی۔‘‘[3]
Flag Counter