Maktaba Wahhabi

205 - 849
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں یتیموں سے خیر خواہی ان سے انصاف اور ان کے حقوق کی نگہداشت کی بڑی تفصیل سے تاکید فرمائی ہے لیکن یہ ذکر نہیں فرمایا کہ یتیم پوتا بھی وراثت کا حق دار ہوتا ہے اس مسئلہ کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود عبدالمطلب کی وفات کے وقت ان کے یتیم پوتے تھے لیکن آپ کو وراثت سے حصہ نہیں ملا نہ ہی اللہ نے اس کا کہیں ذکر کیا، حالانکہ اگر یتیم پوتے کو وراثت سے حصہ دلانا مقصود ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے متعلق بھی قرآن میں کوئی واضح حکم نازل فرما دیتے اور ایسے حکم کا نازل نہ ہونا ہی اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا یا چچاؤں اور پھوپھیوں وغیرہ کی موجودگی میں وراثت کا حق دار نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے مرنے والے باپ کی وراثت کا ہی حق دار ہوتا ہے۔ وراثت فقط اسے ملتی ہے جو میت کی وفات کے وقت زندہ ہو اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے بعض متجددین کے واویلے کی بنا پر ہماری حکومت پاکستان نے قانون وراثت میں یتیم پوتے کو بھی حصہ دار قرار دیا ہے اور یہ بات عقلی اور نقلی دونوں طرح سے غلط ہے۔ عقلی لحاظ سے اس طرح کہ کسی درخت کے پھل کو اس درخت کے ذریعہ زمین سے غذا اسی وقت تک ملتی ہے جب تک وہ درخت پر لگا رہے اور جب درخت سے گر جائے تو اسے غذا نہیں مل سکی اور نقلی لحاظ سے اس طرح کہ تقسیم وراثت کے دو اصول ہیں اور یہ دونوں کتاب اللہ سے مستنبط ہیں پہلا یہ کہ وراثت میں حصہ صرف اس کو ملے گا جو میت کی وفات کے وقت زندہ موجود ہو اور جو میت کی زندگی میں مر چکا اس کا کوئی حصہ نہیں ۔ الاقرب فالاقرب کا اصول دوسرا الاقرب فالاقرب کا اصول ہے: جس کا مطلب یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وراثت سے محروم ہو جاتے ہیں اور قریبی سے مراد یہ ہے جس میں کوئی درمیانی واسطہ نہ ہو جیسے میت کی صلبی اولاد۔ اس لحاظ سے بھی یتیم پوتا اپنے چچاؤں اور پھوپھیوں کی موجودگی میں وراثت کا حق دار قرار نہیں پاتا۔ یتیم پوتے کو وراثت میں حق دار ثابت کرنے والے اس معاملہ کو شاذ قسم کی اور جذباتی قسم کی مثال سے سمجھانے کی کوشش فرماتے ہیں ۔ مثلاً زید کے دو بیٹے ہیں ایک بکر دوسرا عمر، زید کی وفات کے وقت بکر تو زندہ ہوتا ہے مگر عمر مر چکا ہوتا ہے البتہ عمر کا ایک لڑکا خالد زندہ ہوتا ہے اور سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بکر کو تو سارا ترکہ مل جائے اور عمر کے بیٹے خالد کو کچھ نہ ملے، حالانکہ وہ یتیم ہے اور مال کا زیادہ محتاج ہے کہ اس کا جرم یہی ہے کہ اس کا باپ مر چکا ہے؟ پھر ان حضرات نے یتیم پوتے کو حق دار بنانے کے لیے قائم مقامی کا اصول وضع کیا، یعنی خالد اپنے باپ عمر کا قائم مقام بن کر اپنے دادا کے ترکہ سے آدھا ورثہ
Flag Counter