Maktaba Wahhabi

681 - 849
کثرت سوال سوال : کثرت سوال کیا ایک مستحسن اقدام ہے؟ جواب : کثرت سوال اسلام کی نظر میں ایک ناپسندیدہ فعل ہے، قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ﴾ (المآئدۃ:۱۰۱) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں ۔‘‘ حدیث میں ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: بے فائدہ بک بک کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال و دولت ضائع کرنے، ماؤں کو ستانے، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے اور دوسروں کا حق دبانے سے۔‘‘[1] جو جہاں لگا ہے ٹھیک لگا ہے کیا ایسا کہنا صحیح ہے؟ سوال : جو جہاں لگا ہے ٹھیک لگا ہے کیا ایسا کہنا صحیح ہے؟ جواب : اگر یہ بات صحیح ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشقتیں اٹھاتے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جانیں دینا پڑتیں ، بلکہ گھر میں بیٹھے تسبیح کے دانے گھماتے رہتے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی اس نظریے کے باطل ہونے کی دلیل ہے اور خود لوگوں کا طرز عمل بھی اس کے باطل ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ ابھی حکمرانوں کو لتاڑ کر ہٹیں گے دوسرے لمحے مذہب کی بات شروع ہو جائے تو اس مردود جملے کو دہرا دیں گے اور کہیں گے: ’’تجھے کیا پڑی ہے؟ تُو پہلے اپنی نبیڑ۔‘‘ البتہ قرآن میں جو آیت ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo﴾ (المآئدۃ: ۱۰۵) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچاؤ لازم ہے، تمہیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے، جب تم ہدایت پا چکے، اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔‘‘ اس سے بعض یہ مفہوم کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو پیچھے مذکور ہوا ہے۔ لیکن یہ دلائل سے عدم واقفیت
Flag Counter