Maktaba Wahhabi

174 - 849
(کیونکہ پرویز صاحب کے نظریے کے مطابق اصل صرف یک زوجگی ہے) اب ان میں ان کی یتیم اولاد یعنی جوان لڑکیاں …اس تعداد کو چار گنا کر دیجیے … یعنی تقریبا ۳۰۰ عورتیں ان کی شادی کا مسئلہ تھا اور بقول پرویز صاحب چونکہ یہ اجتماعی مسئلہ تھا، لہٰذا ڈیڑھ ہزار مسلمانوں میں سے صرف تین سو مسلمانوں کے مزید ایک بیوی کر لینے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا اور یہ کام ہو بھی حکومتی سطح پر رہا تھا۔ پھر جب سارے مسلمانوں کو دو دو بھی حصہ میں نہ آ سکیں تو تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کے کیا معنی؟!! حقیقت حال یہ اجتماعی فیصلے والی بات بھی عجب دھاندلی ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ﴾ یعنی مسلمان انفرادی طور پر جس جس عورت کو پسند کریں اس سے نکاح کر لیں اور آپ اسے اجتماعی فیصلہ قرار دے رہے ہیں ۔ سو یہ ہے پرویز صاحب کی قرآنی بصیرت جو دراصل اس مغربی تخیل کی پیداوار ہے جس میں ایک سے زائد بیویوں سے نکاح مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔ بات بالکل صاف تھی کہ اسلام نے حکم تو ایک بیوی سے نکاح کرنے کا دیا ہے البتہ اجازت چار بیویوں تک ہے تعدد ازواج اجازت ہے حکم نہیں اور اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہر ایک کے لیے اور ہر دور کے لیے تا قیامت دستور حیات ہے، لہٰذا کسی بھی ملک اور کسی بھی دور کے لوگ اپنے اپنے رسم و رواج یا ضروریات کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مثلاً ہمارے ملک پاکستان میں عورت کی علیحدہ ملکیت کا تصور نہیں ۔ مرد اگر گھر والا ہے تو عورت گھر والی ہے، لہٰذا یہاں اگر کوئی دو بیویاں کر لے تو بے شمار مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، لہٰذا یہاں اگر کوئی دوسری یا تیسری بیوی کرتا ہے تو یقینا کسی خاص ضرورت کے تحت کرتا ہے اور ملک کی ۹۵ فیصد آبادی اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاتی اور ایک ہی بیوی کو درست سمجھتی ہے اس کے برعکس عرب میں آج بھی بیوی کی الگ ملکیت کا تصور موجود ہے، لہٰذا وہاں چار تک بیویاں کرنے پر بھی بیویوں کی باہمی رقابت اور خاوند کو پریشان کرنے والے مسائل بہت کم پیدا ہوتے ہیں پھر وہاں طلاق بھی کوئی ایسا جرم نہیں سمجھا جاتا جس سے دو خاندانوں میں ایسی عداوت ٹھن جائے جیسی پاکستان میں ٹھن جاتی ہے، لہٰذا وہاں نصف سے زیادہ آبادی قرآن کی اجازت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ایک سے زیادہ بیویوں کو مذموم فعل سمجھنے کے اس مغربی تخیل کی بنیادیں دو ہیں : پہلی بنیاد فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اورجنسی آوارگی ہے جسے مغرب میں مذموم فعل کی بجائے عین جائز بلکہ مستحسن فعل سمجھا جاتا ہے اور دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار زندگی بلند ہو اور اولاد کو اعلی تعلیم دلائے مگر ان باتوں پر چونکہ بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کر سکتا لہٰذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو یا کم سے کم ہو اور ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ تو ایک
Flag Counter