Maktaba Wahhabi

538 - 849
طلاق دینے کا طریقہ تفسیر:… ﴿فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ﴾ سے مراد ہے کہ انہیں اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع نہیں ہو پھر انہیں چھوڑے رکھا جائے حتیٰ کہ عدت ختم ہو جائے چنانچہ جب یوں طلاق دو گے تو وہ عدت کے مطابق پڑے گی۔[1] سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ غصے میں آکر فرماتے ہیں ، وہ اس سے رجوع کرے پھر اسے روکے رکھے حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے پھر حیض آئے پھر پاک ہو اب اسے نظر آئے کہ اسے طلاق دے تو طاہرۃ ہونے کی حالت میں بغیر چھوئے اسے طلاق دے سکتا ہے تو یہ وہ عدت ہے جس بارے اللہ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کو طلاق دیتے ہوئے جس کا خیال رکھا جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے ہیں ﴿یٰٓاََیُّہَا النَّبِیُّ اِِذَا طَلَّقْتُمْ﴾[2] ﴿وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ﴾ عدت کی حفاظت کرو اس کی ابتداء انتہاء دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسرا خاوند کرنے سے روک دے۔[3] عدت کے زمانے میں رہائش مطلقہ عورت کے لیے خاوند کے ذمے ہے وہ نکال نہ دے اور نہ خود اسے نکلنا جائز ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کے حق میں رکی ہوئی ہے۔ ﴿بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ﴾ زنا کو شامل ہے اور اسے بھی کہ عورت اپنے خاوند کو تنگ کرے اس کا خلاف کرے اور ایذاء پہنچائے یا بد زبانی کج خلقی شروع کر دے اپنے کاموں اور اپنی زبان سے سسرال والوں کو تکلیف پہنچائے تو ان صورتوں میں خاوند کے لیے جائز ہے کہ اسے اپنے گھر سے نکال باہر کرے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں اور اس کی شریعت کے بتائے ہوئے احکام ہیں جو شخص ان پر عمل کرے انہیں بے حرمتی کے ساتھ توڑ دے ان سے آگے بڑھ جائے وہ اپنا ہی برا کرنے والا اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا ہے شاید کہ اللہ کوئی نئی بات پیدا کرے اللہ کے ارادوں کو اور ہونے والی باتوں کو کوئی نہیں جان سکتا۔[4] خاوند کے ہاں عدت گزارنے میں مصلحت ﴿لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا﴾ واحدی رحمہ اللہ کہتے ہیں جو کام ہونا ہے وہ یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاقوں کے بعد آدمی کے دل میں عورت سے رجوع کی چاہت پیدا ہو جائے اصل میں اس
Flag Counter