اللہ عزوجل کی تقسیم ہی عدل والی ہے پھر فرمایا:’’ ہم نے باپ بیٹوں کو اصل میراث میں اپنا اپنا حصہ لینے والا بنایا اور جاہلیت کی رسم مٹا دی بلکہ اسلام میں بھی پہلے بھی ایسا ہی حکم تھا کہ مال اولاد کو مل جاتا باپ کو صرف بطور وصیت کے ملتا تھا۔ یہ منسوخ کر کے اب یہ حکم ہوا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تمہیں باپ سے زیادہ نفع پہنچے گا یا اولاد نفع دے گی۔ امید دونوں سے نفع کی ہے یقین کسی ایک پر بھی دوسرے سے زیادہ نہیں ۔ ممکن ہے باپ سے زیادہ بیٹا کام آئے اور نفع پہنچائے اور ممکن ہے بیٹے سے زیادہ باپ سے نفع پہنچے اوروہ کام آئے۔‘‘[1] نیز بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ بیٹا جب اپنے باپ سے آخرت میں اونچے درجے پر ہو گا وہ اللہ سے سوال کرے گا کہ وہ اس کے باپ کو بھی اس کی طرف بلند کر دے اور جب باپ اپنے بیٹے سے بلند درجے پر ہو گا تو وہ اللہ سے سوال کرے گا کہ وہ اس کے بیٹے کو بھی اس کی جانب بلند کر دے۔[2] پھر فرماتا ہے:’’ یہ مقررہ حصے اور میراث کے یہ احکام اللہ کی طرف سے فرض ہیں اس میں کسی کمی بیشی کی کسی امید یا کسی خوف کی گنجائش نہیں ۔ نہ کسی کو محروم کر دینا لائق ہے اور نہ کسی کو زیادہ دلوا دینا۔ اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے جو جس کا مستحق ہے اسے اتنا دلواتا ہے ہر چیز کی جگہ کو وہ بخوبی جانتا ہے تمہارے نفع و نقصان کا اسے پورا علم ہے اس کا کوئی کام اور کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں تمہیں چاہیے کہ اس کے احکام اس کے فرمان مانتے چلے جاؤ۔‘‘[3] یہ جواب ان سب نادانوں کے لیے ہے جو میراث کے اس خدائی قانون کو نہیں سمجھتے اور اپنی ناقص عقل سے اس کسر کو پورا کرنا چاہتے ہیں جو اُن کے نزدیک اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں رہ گئی ہے۔[4] میاں بیوی کا حصہ میت اگر عورت ہے تو اس کے خاوند کو آدھا ترکہ ملے گا۔ بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو، اور اگر اولاد ہو تو خاوند کو ۴/۱ ملے گا اور اگر میت مرد ہے تو بیوی کو ۴/۱ ملے گا بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو، اور اگر بیویاں ایک سے زیادہ ہوں تو ۴/۱ ان میں برابر تقسیم ہو گا، اور اگر میت کی اولاد بھی ہو خواہ وہ کسی بھی بیوی سے ہو تو بیوی یا بیویوں کو ۸/۱ ملے گا ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں یہ ان میں برابر تقسیم ہو گا۔ (یہ زوجین کے حصے ہیں ) [5] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |