Maktaba Wahhabi

140 - 849
ضرورت اس وقت پیش آگے گی جب اس معاملہ کی ایسی جزئیات میں نزاع پیدا ہو جائے جنہیں تحریر میں نہ لایا جا سکا ہو اور معاملہ عدالت میں چلا جائے ورنہ تحریر تو کی ہی اس لیے جاتی ہے کہ بعد میں نزاع پیدا نہ ہو اور شہادتیں پہلے سے ہی اس تحریر پر ثبت کی جاتی ہیں ۔ جب سے اہل مغرب نے مساوات مرد و زن کا نعرہ لگایا ہے اور جمہوری نظام نے عورت کو ہر معاملہ میں مرد کے برابر حقوق عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس وقت سے اس آیت کے اس جملہ کو بھی مسلمانوں ہی کی طرف سے تاویل و تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہا یہ جاتا ہے کہ دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کے برابر کر کے اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حق تلفی کی ہے۔ پاکستان میں اپوا کی مغرب زدہ مہذب خواتین نے بڑی دریدہ دہنی سے کام لیا اور اس کے خلاف ان عورتوں نے جلوس نکالے اور بینر لگوائے گئے کہ اگر عورت کا حق مرد سے نصف ہے تو فرائض بھی نصف ہونے چاہئیں ۔ عورتوں پر اڑھائی نمازیں ، پندرہ روزے اور نصف حج فرض ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ طبقہ اڑھائی نمازیں تو درکنار ایک نماز بھی پڑھنے کا روادار نہیں وہ خود اسلام سے ہی بیزار ہیں ۔ ایسے پروپیگنڈے سے ایک تو وہ حکومت کو مرعوب کرنا چاہتی ہیں کہ وہ ایسا کوئی قانون نہ بنائے جس سے عورت کی حق تلفی ہوتی ہو دوسرے یہ کہ وہ دوسری سادہ لوح مسلمان عورتوں کو اسلام سے برگشتہ کر سکیں ۔ عورت کی گواہی اور مساوات مرد و زَن حالانکہ یہاں حقوق و فرائض کی بحث ہے ہی نہیں ۔ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے۔ اس میں نہ عورت کے کسی حق کی حق تلفی ہوتی ہے اور نہ اس کی تحقیر ہوتی ہے بات صرف نسیان کی ہے اور وہ بھی اس جزئیات میں جو تحریر میں آنے سے رہ گئی ہوں ۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت بھول سکتی ہے تو کیا مرد نہیں بھول سکتا۔ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ اسلامی قانون عام حالات کے مطابق وضع کیے گئے ہیں اور ان کا واضع خود اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی مخلوق کی خامیوں اور خوبیوں سے پوری طرح واقف ہے۔ عورت پر حیض، نفاس، حمل اور وضع حمل کے دوران کچھ ایسے اوقات آتے ہیں جن میں اس کا دماغی توازن برقرار نہیں رہ سکتا اور حکمائے قدیم و جدید سبھی عورت کی ایسی حالت کی تائید و توثیق کرتے ہیں ۔ ان مغرب زدہ خواتین کا یہ اعتراض بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ مرد اپنی جسمانی ساخت اور قوت کے لحاظ سے عورت سے مضبوط ہوتا ہے، لہٰذا حمل و وضع حمل کی ذمہ داریاں مرد پر ڈالنا چاہیے نہ کہ عورت پر جو پہلے ہی مرد سے کمزور ہے۔ اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورت اپنی اصل کے لحاظ سے ایسی عدالتی کارروائیوں سے سبک دوش
Flag Counter