Maktaba Wahhabi

654 - 849
ساتھ مشابہ ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واصلہ (اصل بالوں کے ساتھ اضافی بال جوڑنے والی) اور مستوصلہ (بال جڑوانے والی) پر لعنت فرمائی ہے۔[1] یہ پلکیں اگر وہی چیز ہے جن کا اب میں تصور کرتا ہوں کہ سیاہ رنگ کے دھاگے پلکوں کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں اس سے پلکیں لمبی اور گھنی ظاہر ہوتی ہیں اور اس کا مقصد آنکھوں کو خوبصورت بنانا ہے تو اگر مصنوعی پلکوں کا یہی مطلب اور مفہوم ہے جو میں نے سمجھا ہے تو یہ اسی وصل کے حکم میں داخل ہے جس وصل کو اپنے سر پر جاری کرنے والی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے لیکن اگر اس کا مطلب ہے بالوں کو ڈائی کرنا یعنی پپوٹوں کے بال رنگنا تو یہ حرام نہیں ہے۔[2] چہرے پر ماسک لگوا کر صفائی کروانا سوال : چہرے پر ماسک لگوا کر صفائی کروانے کا کیا حکم ہے؟ جواب : عورتوں میں ایک رواج پھیل چکا ہے کہ چہرے پر ماسک لگا کر چہرے کی صفائی کی جاتی ہے اور یہ کام مختلف قسم کی کریموں اور مرہموں کی مدد سے کیا جاتا ہے یا اس کے لیے کبھی جلد کو سن کروا کر ڈاکٹر کی زیر نگرانی آپریشن کروایا جاتا ہے اور اس تمام عمل کے ذریعے سے چہرے کی سطحی جلد کو چھیلا جاتا ہے تاکہ اس پر موجود کیل مہاسے اور زخموں وغیرہ کے نشانات کو زائل کیا جائے جس سے چہرے کی جلد پہلے سے زیادہ صاف شفاف اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔ کبھی آپریشن اور سرجری کے کامیاب نہ ہو نے کی وجہ سے اس عمل کے منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں اور چہرا بھدا، بدنما ہو جاتا ہے اور اس پر جلنے کے نشانات ہو جاتے ہیں پھر چہرے پر جو کیل مہاسے ہوتے ہیں ان کا ازالہ نہیں ہو پاتا۔ اس رواج کے متعلق میری رائے ہے کہ اگر تو ایسا حسین تر بننے کے لیے کیا جائے تو یہ حرام ہے کیونکہ اس صورت میں اسے نمص (ابرو کے بال اکھاڑنا) ’’وشرًا (دانت باریک وتیز کرنا) اور اس طرح کی ممنوع چیزوں پر قیاس کیا جائے گا۔ اور اگر یہ عمل کسی عیب کے ازالے کے لیے ہو جیسے چہرے پر پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے گڑھے اور سفید چہرے پر کالے رنگ کے نشانات اور چھائیاں اور ان جیسی دیگر چیزیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو سونے کی ناک لگانے کی اجازت دی تھی جس کی ناک کٹ گئی تھی۔[3]
Flag Counter