ہندوستان میں ایک روپے کا چار سیر دیسی گھی مل جاتا تھا۔ ملازمین کی تنخواہ ۲ روپے ماہوار سے لے کر ۴ روپے تک ہوتی تھی اور سونے کا بھاؤ تقریباً پانچ روپے تولہ ہوتا تھا۔ یعنی اس وقت بھی ۳۲ روپے کا چھ سات تولے سونا آ جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہوئی کہ روپے کی قیمت تو ہزار گنا گر چکی ہے مگر ۳۲ روپے لوگوں کو اسی زمانے کے یاد ہیں یہ لوگ تو تفریط کی طرف چلے گئے۔ دوسرا گروہ ایسا ہے کہ جو شوہر کی حیثیت سے زیادہ حق مہر کا مطالبہ کر دیتے ہیں ۔ مثلاً شوہر کی حیثیت دس پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں لیکن وہ مطالبہ ایک لاکھ کا کر دیتے ہیں اور زبانی یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ رقم لینی دینی کس نے ہے ہماری غرض تو فقط یہ ہے کہ نکاح نامے میں اندراج ہو جائے اور اس بھری محفل میں ذرا ہماری شان بن جائے باقی نکاح کے بعد میاں بیوی اکٹھے ہوں گے تو ہماری لڑکی یہ رقم بخش دے گی۔ یہ لوگ افراط کی طرف جاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ شریعت میں ایسی حیلہ سازیوں کی گنجائش نہیں ۔ حق مہر لڑکی کی طرف سے معاف کروانا غلط اور گناہ کی بات ہے۔ ہاں اگر کسی کے دباؤ کے بغیر اپنی رضا و رغبت سے حق مہر سارا یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اور بات ہے۔پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق مہر کے نام پر اپنی لڑکیوں کو فروخت کرتے ہیں اور حق مہر کی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور وصول کر کے یہ رقم لڑکی کو نہیں دیتے بلکہ خود کھاتے ہیں اور جب تک انہیں اپنی حسب پسند رقم نہ ملے وہ لڑکیوں کا نکاح ہی نہیں کرتے۔ خواہ وہ بوڑھی ہونے لگیں ۔ ایسے لوگ چند در چند کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ مہر کس کا حق ہے؟ واضح رہے کہ حق مہر کی رقم لڑکی کا حق ہوتا ہے اس کے والدین کا نہیں اور اس پر دلیل نکاح شغار کی ممانعت ہے، چنانچہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا اور نکاح شغار یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیٹی کو اس شرط پر دوسرے شخص سے بیاہ دیتا تھا کہ وہ دوسرا اس سے اپنی بیٹی بیاہ دے اور حق مہر کسی کو نہ دینا پڑے۔[1] یعنی یہ لڑکی کا ولی یا باپ حق مہر کا ذکر تک اسی لیے نہ کرتا تھا کہ وہ اسے ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح حق مہر سے لڑکیوں کو محروم کر کے یہ رقم خود ہضم کر جاتے تھے۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر عورت حق مہر کی رقم معاف نہ کرے تو اسے طرح طرح سے دکھ پہنچانا شروع کر دیتے ہیں اور اس دکھ پہنچانے کی بھی بہت سی صورتیں ہیں ۔ ایسی سب باتیں حرام اور گناہ ہیں ۔ راہ صواب یہی ہے کہ جو حق مہر طے ہوا ہو وہ بیویوں کو بخوشی ادا کر دیا جائے۔[2] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |