﴿ وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٥﴾ وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ حَسِيبًا ﴾ ’’اور بے سمجھوں کو اپنے مال نہ دو، جو اللہ نے تمھارے قائم رہنے کا ذریعہ بنائے ہیں اور انھیں ان میں سے کھانے کے لیے دو اور انھیں پہننے کے لیے دو اور ان سے اچھی بات کہو۔ اور یتیموں کو آزماتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں ، پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھداری معلوم کرو تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو اور فضول خرچی کرتے ہوئے اور اس سے جلدی کرتے ہوئے انھیں مت کھاؤ کہ وہ بڑے ہو جائیں گے۔ اور جو غنی ہو تو وہ بہت بچے اور جو محتاج ہو تو وہ جانے پہچانے طریقے سے کھالے، پھر جب ان کے مال ان کے سپرد کرو تو ان پر گواہ بنا لو اور اللہ پورا حساب لینے والا کافی ہے۔‘‘ تفسیر:… اہل علم نے ان ’’سُفَہَاء‘‘ کے بارے اختلاف کیا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : وہ یتیم ہیں تم انہیں اپنے مال نہ دو۔ نحاس کا کہنا ہے:’’ اس آیت کے بارے کہی جانے والی باتوں میں سے یہ بہترین بات ہے۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ وہ چھوٹے بچے ہیں ۔ تم انہیں اپنے مال نہ دو۔ تم خالی ہاتھ بیٹھے رہ جاؤ گے۔‘‘ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اس سے مراد عورتیں ہیں ۔‘‘[1] سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تیرا مال جس پر تیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کو دے ڈالو کہ پھر ان کا ہاتھ تکتے پھرو بلکہ اپنا مال اپنے قبضے میں رکھو۔ اس کی اصلاح کرتے رہو اور خود اپنے ہاتھ سے ان کے کھانے، کپڑے کا بندوبست کرو اور ان کا خرچ اٹھاؤ۔[2] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |