Maktaba Wahhabi

113 - 849
بجائے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے گویا ان کا کام انہیں فقط مردوں کے لیے جنم دینا ہے۔ یہ معنی کشاف میں مذکور ہے۔ رزق سے مراد یہاں لوگوں کے درمیان متعارف اُتنا کھانا ہے جو اس کے لیے کافی ہو۔ ایسے ہی پہناوا بھی ہے۔ یہ حکم مطلقات کے بارے ہے۔ بہرحال جنہیں طلاق نہیں ہوئی وہ تو دودھ نہ بھی پلا رہی ہوں ان کا خرچہ و پہناوا پہلے ہی خاوندوں کے ذمہ لازم ہوتا ہے۔[1] ﴿لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِہَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ﴾ یعنی باپ سے اس کی مقدرت سے بڑھ کر کھانا و کپڑے مانگ کر یا بچے کی حفاظت و قیام میں کوتاہی کر کے اس کے باپ کو ضرر نہ پہنچایا جائے یا پھر اس عورت کو اس کے خاوند کی جانب سے بایں طور تکلیف نہ دی جائے کہ وہ شوہر اپنے ذمے واجبات سے کماحقہٗ عہدہ برآ نہ ہو یا اس سے بچہ چھین لے اسے اس کے پاس نہ پھٹکنے دے۔[2] ﴿وَ عَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ﴾ (یعنی جب باپ مر جائے) یہ بچہ جو دودھ پی رہا ہے خود بھی اپنے باپ کا وارث ہے اور اس کے علاوہ بھی وارث ہوں گے بہرحال یہ خرچہ مشترکہ طور پر میت کے ترکہ سے ادا کیا جائے گا اور یہ وہ ادا کریں گے جو عصبہ (میت کے قریبی وارث مرد) ہیں ۔[3] پھر فرمایا گیا ہے کہ اگر رضامندی اور مشورہ سے دو سال کے اندر اندر جب کبھی دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں ہاں ایک کی چاہت دوسرے کی رضامندی کے بغیر ناکافی ہو گی اور یہ بچے کے بچاؤ اور نگرانی کی ترکیب ہے۔[4] دودھ پلانے کے احکام و مسائل ترمذی میں باب ہے کہ دودھ پلانے جو حرمت ثابت کرتی ہے وہ وہی ہے جو دو سال سے پہلے کی ہو پھر حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’وہی رضاعت حرام کرتی ہے جو آنتوں کو پُر کر دے اور دودھ چھوٹنے سے پہلے ہو۔‘‘[5] اکثر اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم اور دیگر کا اسی پر عمل ہے کہ دو سال سے پہلے کی رضاعت تو معتبر ہے اس کے بعد کی نہیں ۔ خود قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿وَ فِصَالُہٗ فِیْ عَامَیْنِ﴾ (لقمٰن: ۱۴) ’’دودھ چھڑانے کی مدت دو سال میں ہے۔[6]
Flag Counter